کربلا عصر میں معرکہ شبیر و یزید ، چمن آبادی
کربلا عصر میں معرکہ شبیر و یزید ، چمن آبادی
کربلا، زمین کے ایک قطعے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک نہضت اور ظلم کے خلاف قیام کا نام ہے۔ عاشورا ایک دن کا نام نہیں بلکہ شمشیر پر خون کی فتح کا نام ہے۔ جوانان جنت کے سردار امام حسین (ع)نے اسی لیے فرمایا تھا: مجھ جیسا کبھی یزید جیسوں کی بیعت نہیں کریگا۔
یزید، ظلم وستم، درندگی وحشی گری، گمراہی و ضلالت، جہالت ونادانی، معصیت ونافرمانی، ذلت ورسوائی کا نمائندہ جبکہ امام عالی مقام ایثار وفداکاری، امن وسلامتی، محبت و دوستی، عصمت وطہارت، استقامت وپائیداری، عزت وشرف، ہدایت ورہنمائی، علم وآگاہی کا استعارہ ہیں۔
آج کربلا کی تاریخ دو جگہوں پر پھر تکرار ہو رہی ہے. فلسطین اور پاراچنار کربلائے عصر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ فوج اشقیاء اور فوج اولیاء صفیں باندھ کر انبیاء کی سرزمین پر آمنے سامنے ہیں تو یزیدی اور تکفیری ٹولے لشکر جھنگوی، داعش، ٹی ٹی پی پاکستان، سپاہ صحابہ جیسے دہشتگرد ٹولوں نے پاراچنار کو چاروں طرف سے محاصرہ کر رکھا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے جتنے بھی یزید کے پیروکار ہیں سب نے مل کر پاراچنار کا اقتصادی، سیاسی، معاشرتی، معاشی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ حکومت وقت نے بھی دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے کو اپنا شرعی فریضہ سمجھا ہے۔کئی روز سے پاراچنار پر چڑھائی ہورہی ہے، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاراچنار پر حملہ کیا ہے لیکن دنیا کی نمبر ون ایجنسی اور طاقتور عسکری قیادت نے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
سانحہ عاشورا 1400 سال پہلے واقع ہوا ہے لیکن اس واقعے کا تکرار تاریخ میں بار بار ہوتا رہا اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ اصل میں ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کربلا عصر میں کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ ویسے تو ہم کوفہ والوں کو ہمیشہ کوستے رہتے ہیں کہ انہوں نے امام حسین کو بلا کر شہید کیا لیکن اہل کوفہ کو برا بھلا کہنے والے یہ بھول گئے کہ آج وہ خود یزید کے لشکر کا حصہ ہیں۔ کوفی، صرف 61 ہجری میں کوفہ کے مکین کو نہیں کہتے بلکہ اس کردار کو کہتے ہیں جو مہمان بلا کر ساتھ چھوڑنے، عہد کرنے کے بعد اس پر قائم نہ رہنے، بیعت کرنے کے بعد اس کو توڑ دینے والے جہاں بھی ہوں کوفی ہیں۔ تکفیری ٹولے کی جانب سے اہل تشیع کو ہمیشہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ انہوں نے امام حسین کو کوفہ بلا کر شہید کیا لیکن آج کی کربلا میں یہ فتوی باز مفتی، گلی کوچوں میں چن چن کر شیعہ حضرات کو قتل کرنے والے اسلام کے ٹھیکیدار تکفیری کہاں مر کھپ گئے؟ سرزمین انبیاء اور قبلہ اول یہود ونصاری کے نرغے میں ہے۔ فلسطین میں کربلا کا میدان دوبارہ سج گیا ہے۔ حق وباطل ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں لیکن تکفیری ٹولے فلسطین سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے پاراچنار میں جنگ مسلط کر چکی ہے۔ ہنگو، کوہاٹ، اروکزئی ایجنسی وغیرہ سے تکفیریوں کے جھتے پاراچنار کی طرف جہاد کے لیے جا رہے ہیں ۔ فرزندان توحید اا وقت فلسطین کے محاذ پر محو جہاد ہیں جبکہ تکفیری اور پاکستان دشمن عناصر ملک کو فرقہ واریت کی دلدل میں پھنسانے کے درپے ہیں۔
امام حسین نے مدینہ منورہ سے یزید کی حکومت کے خلاف قیام کے ارادے سے مکہ اور وہاں سے کوفہ کی طرف سفر کرنے کے عزم کا اظہار کیا تو *مروان بن حکم* نے آپ کو مشورہ دیا کہ قیام کی بجائے یزید کی بیعت کی جائے تاکہ جاں بخشی ہوسکے۔ امام عالی مقام نے مروان سے کہا :*صد افسوس ہو تم پر ! تو مجھے یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت کا مشورہ دیتے ہو*۔
آج کی کربلا میں بھی بعض مسلمان ممالک مروان بن حکم کا کردار پیش کرتے ہوئے غاصب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ شنید ہے کہ عرب امارات کا فضائیہ اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں پر بم گرانے میں مشغول ہیں۔ سعودی عرب کافی عرصے سے اسرائیل کے ساتھ رابطے میں ہے اور غاصب صہیونی ریاست کے نجس وجود نا صرف کو تسلیم کر چکا ہے بلکہ پاکستان سمیت کئی ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرئے۔
اردن، مصر اور ترکی پہلے ہی یزید زمان، صہیونی ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ غزہ پر وحشیانہ بمباری، بچوں، خواتین اور معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے باوجود ان ممالک میں اسرائیل کے سفارت خانے معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔
خلافت عثمانیہ کے وارث رجب طیب اردگان ہے یہ حال ہے کہ شام کے تیل والے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کو بیچ رہا ہے۔ اسرائیل، فلسطینیوں کے بستیوں کے بستیاں تباہ کر کے یہودی کالونیاں بناتا جارہا ہے اور وہاں کی آبادی کاری وتعمیرات کے لیے سیمنٹ، سریے اور دیگر ضروری سامان ترکی سے جاتے ہیں۔
قطر ایک طرف فلسطینیوں کے لیے رونا رو رہا ہے لیکن دوسری طرف سے اپنا گیس اسرائیل کو فروخت کر رہا ہے۔
61 ہجری کے کربلا میں امام حسین ع نے دشمن کے مقابلے میں عبداللہ بن حر جعفی سے مدد طلب کی تو اس نے کہا: *میری مدد کا آپ کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یزیدی لشکر آپ کو شہید کر کے ہی دم لے گا۔ میں اپنا گھوڑا آپ کی خدمت میں پیش کرونگا لیکن میں خود آپ کی مدد نہیں کر سکتا کیونکہ دشمن طاقتور ہے اس سے ٹکرانے کا نتیجہ قتل ہے*۔امام حسین ع نے اس کے گھوڑے کو قبول کرنے سے معذرت کیا۔ اسرائیل، یزید کے کردار کو دہراتے ہوئے کربلا عصر غزہ کا 16 سالوں سے بری، بحری اور فضائی محاصرہ کر رکھا تھا اور اب کئی ہفتوں سے غزہ کی سر زمین کو بے گناہوں کے خون سے رنگین کر رہا ہے جبکہ مسلمان ممالک خصوصا *عرب اور ہمسایہ ممالک* عبداللہ بن حر جعفی کا کردار پیش کر رہے ہیں۔ عبداللہ نے فرزند رسول خدا ص کو گھوڑے کی پیش کش کی تھی بالکل اسی طرح اسلامی ممالک کمبل، خیمے، دوائی اور کفن مظلوم فلسطینیوں کی یاد میں مصر پہنچا رہے ہیں جبکہ یزید عصر، اسرائیل کے حامی ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی وغیرہ اسے ممنوعہ بموں، میزائلوں، ٹینکوں اور دیگر جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کے ہر باضمیر انسان اسرائیل کے خونخوار کردار سے اظہار نفرت اور مظلوم فلسطینی شہریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں لیکن مکہ ومدینہ، دبی و شارجہ کی سڑکوں پر ایک فرد بھی ظلم سے نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کے لیے نکلنا تو دور کی بات الٹا فلسطینیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
پاکستان نے پہلی بار جب ایٹمی دھماکہ کیا تو سب سے زیادہ فلسطینی مسلمان خوش ہوئے تھے کیونکہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ سجھتے ہیں لیکن آج وہی واحد اسلامی ایٹمی ملک بھی عبداللہ بن حر جعفی کی طرح خاک وخوں میں غلطاں فلسطینیوں کے لئے صرف خیمے اور کمبل بھیج رہا ہے۔ پاکستانی حکومت میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف کھل کر ایک بیان دے سکے۔ ہم سے تو کافر ملک شمالی کوریا بہتر ہے جس نے کھل اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی کاروائی《طوفان الاقصی》 کو حق بجانب قرار دیا۔
57 اسلامی ممالک اسرائیلی خونخواری اور درندگی کے سامنے خاموش تماشائی بنے کھڑے ہیں جبکہ مکتب حسینی میں تربیت یافتہ لبنانی حزب اللہ عراقی حشد شعبی، یمنی انصار اللہ اور شام کے لجان شعبی ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے یزیدی لشکر پر پے در پے حملے کر کے اس کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے خیمے کے اصلی ستون، امریکہ سمیت استکباری طاقتوں کو ناکوں چنے چبوانے والے اسلامی جمہوریہ ایران وہ واحد ملک ہے جس غلیل سے دشمن کا مقابلہ کرنے فلسطینی مجاہدوں کو جدید میزائل ٹیکنالوجی اور ڈرون سے مسلح کرنے کے ساتھ ان کی اقتصادی اور سیاسی سپورٹ کر رہا ہے۔
Urdu news، Karbala is not the name of a piece of land.