نوجوان وزیراعظم ، پروفیسر قیصر عباس
نوجوان وزیراعظم ، پروفیسر قیصر عباس
“کسی کو دوسری یا چوتھی دفعہ وزیر اعظم نہ بنائیں مجھے موقع دیں٫ملک کو نئی قیادت اور سیاست کی ضرورت ٫سوچناہوگا کیا 70سالہ بابوں کے ہاتھ میں ملک کی حکومت دے دیں؟٫مسائل کا حل صرف پیپلز پارٹی کے پاس ٫حکومت بنا کر کابینہ کا ایک ہی ایجنڈا ہوگا مہنگائی اور غربت کو کیسے ختم کرنا ہے؟”ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایبٹ آباد میں ورکرز کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ان کا مزید کہنا تھا “ملک میں اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی٫ملک کے مسائل کا حل نکالنا مشکل نہیں ہے تاہم اس کے لئے ایک نظریہ ہونا چاہئے ٫عوام سے وعدہ ہے مایوس نہیں کروں گا۔”پیپلز پارٹی کے ورکرز سے مخاطب ہو کر بلاول بھٹوزرداری نے کہا”مسائل کا حل پیپلز پارٹی کا منشور ہے٫قائد عوام نے ہمیں راستہ دکھایا ہے اس پر چلنا ہے٫ملک کے غریبوں اور کسانوں کو حقوق دے گے٫پیپلزپارٹی کے پاس منصوبہ ہے کہ عوام کو کیسے ان مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں٫بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافہ کریں گے٫اس کے ساتھ ایسے منصوبے لائیں گے کہ ہر طبقے کو فائدہ پہنچا سکیں ٫کسان کارڈ کے ذریعے ریلیف دیں گے٫کوئی بھی سبسڈی سے غلط فائدہ نہیں اٹھائے گا٫پاکستان پیپلز پارٹی مزدور کارڈ لائے گی جس کا پائلٹ منصوبہ سندھ میں شروع کیا ہے اس کو پورے پاکستان میں لائیں گے اس کارڈ کے ذریعے تعلیم اور صحت کی سہولت دیں گے۔”ان خیالات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بلاول بھٹوزرداری وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ہنوز کامیاب نہیں ہوپا رہے کیونکہ ان کے سابقہ اتحادی ہر طرف میدان مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں بلوچستان کے بڑے بڑے قبائلی سردار اور الیکٹبلز مسلم لیگ نون میں شامل ہوچکے ہیں جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مقتدرہ کی نظر کرم اس وقت کس پر ہے ؟اور اسلام آباد میں چلنے والی ہواؤں کا رخ کس طرف ہے؟ا یہ ہوائیں کس کو موافق آئیں گی ؟تین علاقوں کے پرندےاسلام آباد کی ہواؤں سے بہت اچھی طرح آشنا ہیں ان علاقوں کے پرندے سب سے پہلے جان جاتے ہیں کہ اب ہم نے کونسی شاخ پہ بیٹھنا ہے ۔پہلا کشمیر دوسرا گلگت بلتستان اور تیسرا بلوچستان ۔ان کی سیاسی حس باقی علاقوں سے تیز ہے اور سیاسی معاملہ فہمی بھی بہتر ہے۔رہ گئی اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ باور کروانا کہ آئندہ وزیراعظم “جیالا “ہوگا تو شاید بلاول بھٹو زرداری کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ گیم ان کے اور ان کے والد گرامی کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اس لئے الیکشن سے پہلے اس طرح کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ بعد میں اس بات پر شور ڈالا جائے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور” نیا لاڈلہ “تلاش کر کے پیپلز پارٹی کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے ورنہ نوشتہ دیوار پیپلز پارٹی کے قائدین نے پڑھ لیا ہے۔اس لئے کبھی پیپلز پارٹی کے قائدین لیول پلئینگ فیلڈ نہ دینے پر رو رہے ہیں اور کبھی سیاسی الائنس بنانے پہ رونا دھونا ڈالا ہوا ہے۔پیپلزپارٹی کی قیادت کو محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے ساتھ “ہاتھ “کیا گیا ہے.اور اب بلاول بھٹو وزیراعظم کی دوڑ سے تقریباً باہر ہوچکے ہیں کیونکہ بلوچ سرداروں نے بھی میاں صاحب کے ہاتھ پر” بیعت”کر لی ہے ۔KPK میں پیپلز پارٹی کی موجودہ پوزیشن اتنی قابل رشک نہیں ہے ۔پنجاب میں پیپلز پارٹی نے اپنے قدم جمانے کی بہت کوشش کی ہے مگر کامیابی نہیں مل سکی پہلے پنجاب میں تحریک انصاف نے پی پی پی کا خلا پر کیا اور اب نئی پارٹی استحکام پاکستان پارٹی بھی میدان میں ہے۔جنوبی پنجاب میں کچھ گدی نشین یا قبائلی سردار ایسے ہیں جو پیپلز پارٹی کے ساتھ منسلک ہیں مگر یاد رہے ان کے مقابلے میں بھی ان کی سطح کے مضبوط امیدوار ہونگے ۔اس سب کے باوجود یہ وہ سیٹیں ہیں جو شخصیات کو ملتی ہیں نا کہ پارٹی کو یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے الیکٹبلز آج ایک جماعت میں ہوتے ہیں تو کل دوسری جماعت ہیں ۔پیچھے بچ گیا سندھ تو اندورن سندھ میں پیپلز پارٹی مضبوط تو ہے مگروہاں بھی GDA اتحاد پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم لازمی دے گا۔جب کہ کراچی شہر کی حد تک ایم کیو ایم اور مسلم لیگ نون میں انتخابی الائنس ہوگا جو کہ پیپلز پارٹی کے لئے مشکلات کھڑی کرے گا۔اس لئے آنے والا الیکشن پیپلز پارٹی کے لئے آسان نہیں ہوگا ۔لیکن بلاول بھٹو زرداری صاحب نوجوان وزیراعظم کی بات کر رہے تو اس سے مراد پیپلز پارٹی میں موجود وہ نوجوان نہیں جو بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ معاملہ فہم اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں بلکہ نوجوان وزیراعظم سے مراد خود بلاول بھٹو زرداری ہی ہیں۔حالانکہ پیپلز پارٹی میں اس وقت نوجوان تو مرتضیٰ وہاب بھی ہیں جو کہ پیپلز پارٹی کی جیالی فوزیہ وہاب کے بیٹے ہیں اور پچھلی گورنمنٹ میں کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہ چکے ہیں اور اب مئیر کراچی ہیں ۔پیپلزپارٹی میں ایک نوجوان مصطفیٰ نواز کھو کھر بھی تھا جسے سینٹر منتخب کروایا گیا لیکن جب اس نے ایک جاندار اور قابل ستائش موقف اپنایا تو اس سے استعفیٰ مانگ لیا گیا لیکن اس نوجوان نے اپنے موقف کو ترجیح دی اور سینٹر شپ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا ۔پیپلرپارٹی میں بلاول بھٹو زرداری کے علاؤہ اور بھی نوجوان موجود ہیں لیکن بلاول صاحب کو بس ایک بات کا فائدہ ہے وہ یہ کہ ان نوجوانوں میں سے کسی کی ماں بے نظیر بھٹو نہیں اور کسی کاوالد آصف علی زرداری نہیں اس لئے یہ لوگ کبھی بھی ایوان وزیراعظم کے مکین نہیں بن سکتے کیونکہ ہمارے نظام میں موروثیت کی جڑیں بہت مضبوط اور طاقت ور ہیں۔
تہذیب تمدن و ثقافت سے عاری لوگ ، یاسر دانیال صابری گلگت
Urdu column, Prime Minister should be Young