فروری!کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے, پروفیسر قیصر عباس
8 فروری!کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے, پروفیسر قیصر عباس
آخر کار الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر اور صدر مملکت عارف علوی کی ملاقات کے بعد 8فروری 2024ءبروز جمعرات طے پائی گئی ہے۔پاکستان کی تخلیق کی وجہ بھی 1945-46ء کے انتخابات تھے جس میں مسلم لیگ نے شاندار فتح حاصل اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔اس کے بعد پاکستان میں 1970ء تک براہ راست انتخابات کا انعقاد نہ ہوا اور جب انتخابات کا انعقاد ہوا تو پاکستان دولخت ہوگیا۔اگرچہ ملک میں مارشل لاء بھی لگتے رہے مگر انتخابات بھی ہوتے رہے ۔یہ انتخابات کبھی آمر کرواتے رہے اور کبھی سویلین حکومتیں۔یاد رہے صدر مملکت عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات کا اہتمام سپریم کورٹ کے حکم پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کروایا ۔اس ملاقات میں صدر مملکت 4فروری کو انتخابات کی تاریخ چاہتے تھے جب کہ چیف الیکشن کمشنر 11فروری اتوار والے دن انتخابات کروانا چاہتے تھے ۔آخر کار انتخابات کی تاریخ 8 فروری 2024بروز جمعرات طے پائی گئی ہے۔90روز کے اندر انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت تین رکنی بنچ جس کی سربراہی خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے جب کہ دوسرے دوججز جن میں جسٹس آمین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے ٫ نے عام انتخابات کے حوالے سے فیصلہ سنا دیا ۔قاضی صاحب نے اس فیصلے میں ریمارکس دئیے کہ “سپریم کورٹ کا فیصلہ پتھر پہ لکیر ہوگا”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ” جو تاریخ الیکشن کمیشن دے گا پھر اس سے ایک دن بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا”.اس پنچ کے سامنے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر ٫پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور الیکشن کمیشن کے وکیل پیش ہوئے ۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حلقہ بندیوں پر عمل جاری ہے جو کہ 30نومبر تک مکمل ہوجائے گا جبکہ 5دسمبر تک حلقہ بندیوں کا حتمی طور پر اعلان کر دیا جائے گا۔جس کے بعد الیکشن پروگرام کا اعلان کیا جائے گا جو 29جنوری 2024ء کو مکمل ہوگا۔یہ مناسب ہوگا کہ الیکشن 11فروری 2024ءاتوار والے دن ہوں۔بہرحال چیف الیکشن کمشنر اور صدر مملکت کی باہمی مشاورت سے ایک سنگ میل تو عبور کر لیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے ۔اب اس سے اگلا مرحلہ شروع ہوگا اور یہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر طے کرنا ہے کہ الیکشن کے انعقاد کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے جو یقیناً پوری کی جائے گی لیکن الیکشن کے انعقاد کے بعد بھی جو اہم مرحلہ ہے وہ ہے نتائج کو تسلیم کرنا کیونکہ پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ الیکشن کے نتائج کو کبھی بھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ ہمیشہ ہارنے والی جماعت یا جماعتوں نے دھاندلی کا رونا ہی رویا ہے۔صرف 1970ء کے انتخابات ہی واحد انتخابات ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انتخابات شفاف تھے اس کے علاؤہ 1977ء کے انتخابات پر بھی پاکستان قومی اتحاد کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور احتجاج کیاگیا یہ احتجاج اس حد تک بڑھا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر تقریباً تمام سیاسی راہنماؤں کو نظر بند کردیا۔اس کے بعد بھٹو صاحب کے خلاف نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلا اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔جنرل صاحب نے 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن کا تجربہ کیا اس الیکشن کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا۔مگر اس الیکشن کی وجہ سے محمد خان جونجو وزیراعظم بن گئے جنہیں خود ہی جنرل صاحب نے برطرف کر دیا۔1988ءمیں جنرل صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے تو غلام اسحاق خان صدر مملکت بن گئے جن کی صدرات میں 1988ء کے انتخابات ہوئے جس کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم بنی۔ مرکز میں پیپلز پارٹی جب کہ پنجاب میں میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ بنے یوں مرکز اور پنجاب آمنے سامنے ہی رہا۔بے نظیر بھٹو کی حکومت کو غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کی شق 58-2بی کے تحت ختم کردیا 1990ء میں دوبارہ انتخابات ہوئے میاں نواز شریف پنجاب سے مرکز میں آئے اور وزیراعظم بنے مگر یہ بھی غلام اسحاق خان کے ساتھ نہ چل سکے اور اسی آئینی شق کو استعمال کرکے نواز شریف کو گھر بیھج دیا گیا مگر اب کی دفعہ” کاکڑ فارمولے” کےتحت غلام اسحاق خان کو بھی گھر جانا پڑا.1993ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پھر وزیراعظم بنی اور ایوان صدر میں اپنے قابل اعتماد ساتھی سردار فاروق لغاری کو بیٹھا دیا مگر اس وفادار ساتھی نے ایوان صدر پہنچتے ہی اپنی آنکھیں بدل لیں اور اپنی پارٹی کی سربراہ کی حکومت کو ختم کردیا۔1997ء کے انتخابات کے بعد وزارت اعظمی کا تاج ایک بار پھر میاں صاحب کے سر پر سجا مگر اپنے ہی بنائے ہوئے آرمی چیف کے ہاتھوں اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے۔جنرل مشرف کی زیر صدارت 2002ء کے انتخابات ہوئے مسلم لیگ ق نے اقتدار سنبھالا یکے بعد دیگرے تین وزراء اعظم تبدیل ہوئے اور نظر انتخاب ایک غیر سیاسی اور ماہر معاشیات شوکت عزیز پر ٹکی ۔جو 2007ء تک وزیر اعظم رہے۔دسمبر 2007میں بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے فتح حاصل کی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم جب کہ آصف علی زرداری صدر پاکستان بنے اور اس حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔2013ء میں مسلم لیگ ن نے انتخاب جیتا میاں نواز شریف وزیراعظم بنے مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نااہل قرار پائے۔2018ءکے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پہلی دفعہ اس ملک کے وزیراعظم بنے چار سال تک اس ملک کے وزیراعظم رہنے کے بعد اپریل 2022ء کو عدم اعتماد کی قرارداد کے ذریعے انہیں وزارت اعظمی سے علیحدہ ہونا پڑا یاد رہے عمران خان پاکستانی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں عدم اعتماد کی وجہ سے ایوان وزیراعظم سے نکلنا پڑا اور اس کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ۔اب فروری 2024 ء کو دوبارہ انتخابات کا میدان سجے گا وزارت اعظمی کا تاج کس کے سر سجے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا ؟مگر انتخابات کی” کریڈیبلٹی”کے لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو “لیول پلئینگ فیلڈ”دی جائے۔تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی جائے اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جس کی وجہ سے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھیں ۔لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہارنے والی جماعت یا جماعتیں اس کے باوجود دھاندلی کا شور ضرور مچائیں گی۔
پروفیسر قیصر عباس!
Urdu column, General election announced in Pakistan