خطرناک رجحان، پروفیسر قیصر عباس
خطرناک رجحان، پروفیسر قیصر عباس
سیاسی پارٹیوں کا وجود اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود سیاست ۔دنیا کےدو ممالک جن کی مثال جمہوریت کے حوالے سے دی جاتی یعنی امریکہ اور برطانیہ وہاں بھی سیاسی جماعتوں کا وجود ہے امریکہ اور برطانیہ میں دوجماعتی نظام موجود ہے امریکہ میں ایک جماعت کا نام ڈیموکریٹک پارٹی ہے جبکہ دوسری جماعت کانام ریپبلکن پارٹی ہے ۔اسی طرح برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی اپنے اپنے نظریات و منشور کے مطابق سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتیں ہیں۔امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن ابتداء میں سیاسی پارٹیوں کے مخالف تھے ان کے مطابق سیاسی جماعتیں انتشار اور اختلافات کی وجہ بنتیں ہیں جس کی وجہ سے ملک کی بنیادیں کمزور ہوتیں ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ارباب اختیار کو بھی اس حوالے سے بھی قائل ہونا پڑا کہ اختلاف رائے ملک کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرتا ہے۔بالکل اسی طرح برطانوی سامراج نے برصغیر میں جہاں اپنے سامراجی عزائم کو پایا تکمیل تک پہنچایا وہی عوام کے جذبات اور رجحانات کو جاننے کے لئے 1885ء میں اے اوہیوم کی زیر قیادت آل انڈیا کانگریس کی بنیاد رکھی۔جس نے بعد میں ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی ہندوستان میں اس جماعت کا وجود باقی ہے۔جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے 1906ء میں صوبہ بنگال کے شہر ڈھاکہ میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جس کی جدوجہد کی وجہ سے مسلمان ایک آزاد ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور آج ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں۔
خطرناک رجحان، پروفیسر قیصر عباس
2018ء کے عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ نون کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دے کر سزا دلوا دی گئی تھی اور یہ نااہلی تاحیات تھی۔اس کے بعد 2018ء کے انتخابات کا بگل بجایا گیا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور یوں جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی کی مدد سے عمران خان معمولی برتری سے اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔اس کے بعد تین سال تک عمران خان اس ملک پر حکومت کرتے رہے اور میاں صاحب کچھ عرصہ جیل میں رہے۔پھر بغرض علاج لندن تشریف لے گئے لیکن حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان یہ کہتے رہے کہ نواز شریف کو میں نے نہیں بلکہ مجھ سے بالا قوتوں نے باہر بیجھا ۔
انگریزوںکے مفادات ہمارے بدامنی سے مشروط ہے. مذید پڑھیے . ،
اب 2024ء کے انتخابات کی آمد آمد ہے ہر طرف الیکشن کے انعقاد کی باتیں ہورہیں ہیں ۔اس بات کی تصدیق الیکشن کمیشن نے کردی ہے ۔لیکن نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے ایک بیان نے سیاست کے میدان میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے اس بیان میں ان کا کہنا تھا کہ “عمران خان اور تحریک انصاف کے بغیر بھی الیکشنز کا انعقاد ہوسکتا ہے”۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو انتخابات سے باہر رکھنے کے بارے بھی اک سوچ موجود ہے ایسا لگ رہا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے سارے کھیل کو دوہرایا جائے گا مگر اس دفعہ کردار بدل چکے ہیں۔تب میاں محمد نواز شریف کو باہر رکھا گیا تھا اور اب کی دفعہ عمران خان اور ان کی جماعت کو انتخابات سے باہر رکھنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔بہرحال ایک بات بالکل واضح ہے کہ ایسے اقدامات سے جماعتیں ختم نہیں ہوتیں یہ ضرور ہوتا ہے کہ وقتی طور پر وہ جماعت پس منظر میں چلی جاتی ہے لیکن جونہی حالات سازگار ہوتے ہیں وہ جماعت اور لیڈر منظر پہ نمایاں حثیت میں سامنے آجاتا ہے۔سیاسی جماعتیں اور لیڈران صرف کارکردگی کی بنیاد پر ہی سیاست سے آوٹ ہوسکتے ہیں اگر ایک سیاسی جماعت حکومت میں آکر کارکردگی نہ دیکھائے تو اگلے انتخاب میں اس کے لئے الیکشن جیتنا مشکل ہو جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعتیں اپنی کارکردگی کو بہتر بناتیں ہیں۔اگر کارکردگی بہتر نہ ہو تو پھر جماعتوں کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے لئے شفاف ٫غیر جانب دار اور مسلسل انتخابات خود احتسابی کا ایک ایسا عمل ہے جس کے زریعے ان کی بقا ممکن ہوتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس قدرتی طریقے کو اپنانے کی بجائے ہمیشہ مصنوعی طریقوں کو اپنایا گیا ہے جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے جمہوریت ایسے اقدامات کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے ۔اگر آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے بھی ایسا بہت دفعہ ہوچکا ہے کہ کسی جماعت یا لیڈر کو ناپسندیدہ قرار دے کر الیکشن سے باہر رکھا گیا ہو۔پاکستان بننے کے ساتھ ہی ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے” PRODA” نامی قانون بنوایا(Public Representative Office Disqualification Act) اس قانون کے تحت لیاقت علی خان نے ان سیاست دانوں پر سیاست کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی جو ان کے نزدیک ناپسندیدہ تھے۔لیکن لیاقت علی خان منظر سے پس منظر میں چلے گئے تو یہ سیاست دان پھر سے میدان سیاست میں سرگرم ہوگئے۔اس کے بعد ملک کے پہلے آمر جنرل ایوب خان نے” EBDO اورPODO”نامی قوانین بنائے جن کا مقصد سرکش سیاست دانوں کو سیاست سے آوٹ کرنا تھا مگر جب ایوب خان سیاست سے دستبردار ہوئے تو یہی سیاست دان پھر سے کارزارسیاست میں” ان ” ہوگئے۔بھٹو صاحب نے اس وقت کی” نیپ”اور آج کی ANP کو غدار قرار دلوا کر اس جماعت پر پابندی لگوا دی مگر قدرت نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت یعنی 2008ء میں ہی KPK میں دونوں جماعتوں کو مل کر حکومت بنانے پر مجبور کردیا یعنی جس پارٹی کو پیپلز پارٹی کے بانی قائد نے غیر قانونی قرار دلوا کر پاپندی لگوائی تھی 2008ء میں اسی پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین جناب آصف علی زرداری نے اسی جماعت کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی ۔جنرل ضیاء الحق نے تو غیر جماعتی انتخابات کروائے اور تمام سیاسی جماعتوں پر ہی پابندی لگا دی مگر وہ بھی سیاسی جماعتوں کو کلی طور پر ختم نہ کر سکے۔اس کے بعد جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو جنرل صاحب نے مسلم لیگ ن کو توڑ کر Kings Party مسلم لیگ قائد اعظم کی بنیاد رکھی مگر جونہی پرویز مشرف اقٹدار سے علیحدہ ہوئے تو یہ جماعت گجرات کے چوہدریوں تک محدود ہوگئی۔جماعتوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا یہ ضرور ہے کہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے ۔سیاسی پارٹیاں دراصل عوام کی آواز ہوتیں ہیں اور یہ آواز جماعت کے کارکنوں کے زریعے ارباب اختیار تک پہنچتی رہتی ہے جس کی وجہ سے عوامی رجحان کا پتہ چلتا رہتا ہے۔اس لئے کسی جماعت اور لیڈر کو انتخابات سے باہر رکھنا ایک خطرناک رجحان ہے جس کا نقصان صرف اور صرف جمہوریت کو ہی پہنچتا ہے۔
urdu column, Dangerous trend
مقدمات کی بحالی ،،، پروفیسر فیصر عباس ،، مذید پڑھئے