انگریزوں کے مفادات ہماری بدامنی سے مشروط محمد کاظم شگری

انگریزوں کے مفادات ہماری بدامنی سے مشروط محمد کاظم شگری
urdu news, British interests subject to our unrest
انگریز جب ہندوستان میں آئے تو انھوں نے دیکھا ریاستی ادارے خصوصی طور پر حکمران جماعت اپنے مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے معیاری و غیر معیاری طریقہء کار کو اپنانے میں مصروف ہیں۔ حکمران اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے میں مصروف تھے اسی کمزوری کو پیش نظر رکھ کر انگریزوں نے اقتدار کا خواب دیکھا مگر اس خواب کی تکمیل کے لیے بہت ساری رکاوٹیں تھی ساتھ ہی ساتھ ان کو مقصد کے حصول کے لیے راہیں بھی تلاشنے کا خیال تھا۔ انگریزوں نے مشہور زمانہ اور روایتی طرز یعنی “آپس میں لڑاؤ اور حکومت کرو” کو اپنایا انھوں نے دیکھا کہ کس طرح آپس میں ہندوستانیوں کو تقسیم کی جا سکتی ہے اس مقصد کے پیش نظر جب انھوں نے قوموں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج کارآمد ثابت نہیں ہوئے کیونکہ ہندوستان میں بہت ساری قومیں آباد تھیں اور ان سب کو آپس میں لڑانا اور خود انگریز اقتدار پر قابض ہو جانا ممکنات میں شامل نہیں پایا لہذا انھوں نے کئی قوموں کو آپس میں لڑانے سے گریز کیا۔ کئیوں ہتھیاروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے انگریزوں نے سب سے بڑا ہتھیار جو آپس میں توڑ پھوڑ پیدا کرنے کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتا تھا کا استعمال کیا وہ مذہب کا ہتھیار تھا۔ انگریزوں نے دیکھا ہندوستان جیسی بڑی آبادی والی ریاست میں تقسیم کے لیے موزوں ترین ہتھیار مذہب ہی ہو سکتا ہے لہذا ہندوستانیوں کو مذہب کے نام پر لڑوانے کی کامیاب ترین کوشش کی گئی اور وہ اپنی اس کوشش میں کسی رکاوٹ کے بغیر آسانی سے کامیاب ہوئے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی مذہبی تقسیم ہی تھی جس کی وجہ سے انگریز یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک کہلائے گئے۔

گلگت بلتستان پولیس میں‌ایک ہزار اسامی بڑھانے پر اتفاق

انگریزوں کی جتنی دیر حکمرانی رہی اتنے عرصے میں انھوں نے ہندوستانیوں کو مذہبی فسادات میں الجھائے رکھا آپس میں نفرین پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے مذہب میں نقائص نکالنے کے مواقع فراہم کئے گئے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان کی بچی کچی دولت انگلستان لے گئی تب ہندوستانیوں کو خالی خزانے کے ساتھ آزاد کرانے کا اعلان کر دیا یہاں بھی انگریزوں نے مذہب کے نام پر ملکی تقسیم کو ہوا دی، انھیں کی پس پردہ خواہش کی بنا پر مذہب کی بنیاد پر ملکی تقسیم اور آزادی کے نام پر قتل و غارت اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ 1700 کے بعد ہندوستان میں مذہب کے نام پر جتنے بھی فسادات ہوئے ان سب میں انگریزوں کا کردار اور ان کی خواہش شامل تھی بلکہ انھیں کے ایما پر سب کچھ ہو رہا تھا مگر سادہ لوح ہندوستانی اپنوں کے خون بہانے کو مذہبی فریضہ قرار دیتے ان کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے انھیں اس لاعلمی اور مذہبی دہشتگردی کی جانب مزید دھکیلنے کی جانب توجہ دی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ urdu news, British interests subject to our unrest
انگریزوں نے مذہبی بنیادوں پر فسادات کا بیج بویا تھا وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔ گو کہ انگریز یہاں سے چلے گئے مگر ان کے طرز پر عمل پیرا ہونے والے ٹولے نے انگریزوں سے کہیں زیادہ مذہب کے نام پر فسادات برپا کئے۔ حالیہ دنوں پاکستان بشمول گلگت بلتستان کے حکمرانوں کی حیثیت اورطرز عمل آخری دور کے مغل بادشاہوں کی حیثیت اور طرز عمل جیسا پایا گیا ہے اور جس طرح اس دور میں انگریزوں نے پس پردہ اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالی تھی یہی طرز عمل کو یہاں کے کالے انگریزوں نے اپنائے رکھا ہے۔ یہاں بھی بظاہر آزاد ریاست، آزاد رعایا، آزاد حکمران، آزاد عدلیہ نظر آتی ہے مگر پس پردہ انھیں طاقت پر ناجائز قابض کالے انگریزوں کی اجارہ داری اور آمریت قائم ہے۔ کالے انگریزوں نے گورے انگریزوں کے دور میں اپنائے ہوئے ہر کامیاب حربے کو بار بار آزمایا ہے اور رعایا کو ان کا تجربہ بھی حاصل ہے مگر سادہ لوح رعایا ہر بار ان کے فریب میں آ جاتی ہیں۔ سو سال گزرنے کے بعد بھی کالے انگریزوں نے اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے ہر بار مذہب کا استعمال کیا ہے اور اکثریت جاننے کے باوجودبھی استعمال ہوتی چلی جاتی ہیں۔
گلگت بلتستان(خصوصی طور پر بلتستان) کو امن کا گہوارہ کہا جاتا ہے یہاں آئے ہوئے سیاح چاہیں وہ انگریز ہوں، پنجابی ہوں، پٹھان ہوں، سندھی ہوں، مہاجر ہوں، یہودی ہوں، عیسائی ہوں یا ہندو سب کے سب یہاں کی امن پسندی کی تعریف کیے جاتے تھے، یہاں کے لوگوں کی انسان دوستی اور بین المذاہب کے مابین خوش گوار تعلقات کی تعریف ہر سو ہوتی رہتی تھی۔ انھیں امن پسندی اور سیاحتی مقامات کی کثرت کی وجہ سے دنیا گلگت بلتستان کی طرف متوجہ ہوئی تھی، یہاں ترقیاتی منصوبوں کے امکانات زیادہ سے زیادہ نظر آ رہے تھے ممکنہ طور پر گلگت بلتستان کا رابطہ اگر دنیا سے ہوتا یا دنیا مکمل طور پر گلگت بلتستان کی جانب متوجہ ہوتی تو یقینا گلگت بلتستان اپنی محرومیوں سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوتا ساتھ ہی ساتھ عوام میں شعور بیدار ہوتا۔ کالے انگریز کسی اور چیز کے دشمن ہو نہ ہو مگر یقینی طور پر شعور و بیداری کے دشمن ہیں تبھی انھوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو شعور و بیداری اور یکجہتی سے روکنے اور ناجائز طور پر گلگت بلتستان کے جملہ وسائل پر قابض ہونے کے لیے آپس میں لڑانے کا روایتی طریقہ اپنایا گیا۔ اس بار بھی وہی روایتی طرز، روایتی ہتھیار یعنی مذہبی بنیادوں پر آپس میں لڑانا اور خود بحالی امن کے نام پر وسائل پر قابض ہو جانا۔۔۔۔ امن کی وادی میں مسلمان مسلمان کے خون بہانے کے درپے ہیں اور جنت کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرنے کے لیے اس بار علامہ و شیخ کا انتخاب کیا ہےدونوں گروہوں میں مقدسات کی توہین سے امن کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دونوں گروہ اپنے اپنے عقیدے اور ایمان کا جزو قرار دے کر لعنت بھیجتے ہوئے خود پر جنت واجب قرار دے رہے مگر ان سادہ لوح اور مذہبی ٹھیکیداروں کو یہ نہیں معلوم کہ کالے انگریزوں نے گورے انگریزوں کے طرز کو اپنا کر اس بار بھی سب کو اپنے مفادات کی تکمیل کی خاطراستعمال کیا ہے۔ مذہب کا بنیادی مقصد امن کے لیے راہیں ہموار کرانا اور انسانیت کی بقا کو یقینی بنانا تھا مگر اب کے بار آپس میں تفرقہ بازی کی خاطر، بدامنی کی خاطر، قتل و غارت کی خاطر، جہالت میں مبتلا رکھنے کی خاطر، غلامی کے طوق گلے میں ڈالے رکھنے کی خاطر اور کالے انگریزوں کے مفادات کی تکمیل کی خاطر مذہب، مذہبی پیشواؤں اور سادہ لوح آگاہی سے محروم مذہبی جنون میں مبتلا لوگوں کو استعمال کیا جا رہا۔ فرقہ واریت گلگت بلتستان کے حق میں ہر صورت میں مہلک بیماری ثابت ہوگی جس میں مبتلا ہر ملا، ہر مولوی، ہر شیخ اور ہر سادہ لوح پیروکار کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ اس بیماری میں مبتلا ہو کر گلگت بلتستان ترقی معکوس کی راہ پر گامزن ہو کر ایک دن پاتال میں پہنچ کر نابود ہو جائے گا۔ urdu news, British interests subject to our unrest
اگر گلگت بلتستان میں کوئی بقا چاہیں تو اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فرقہ واریت پھیلانے سے فائدہ کس کو ہو رہا۔۔ کس کے مفادات کی تکمیل ہو رہی۔۔ آپس میں امن و شانتی سے رہائش پذیر ہوں تو نقصان کس کا ہو رہا۔۔ علاقائی مفادات نفرت پھیلانے میں ہیں یا امن و محبت پھیلانے میں ہیں۔۔ ان سب کاجواب سب کے سامنے واضح ہے ہر ذی شعور اور بیدار مغز کا جواب ایک جیسا ہوگا اگر سب کا جواب ایک ہوگا، سب کی سوچ میں مطابقت ہوں گی تو ایسی کون سی رکاوٹ در پیش ہے جو ہر بار آپس میں بدامنی پھیلانے کا موجب بنتی ہے؟ اس کا جواب فقط یہی ہوگا کہ کالے انگریزوں اور ناجائز قابض کالے بھیڑیوں کے مفادات۔۔ جن کے مفادات یہاں کی رعایاکی جہالت، انتہاپسندی، بدامنی، بےحسی، بے فکری، قتل و غارت، آگہی دشمنی سے مشروط ہیں۔ اگر یہاں کی رعایا آزادی، آگہی، امن و شانتی، ترقی و خوش حالی، اور اپنی بقا چاہتی ہے تو سب کو چاہیے کہ اپنے عقیدے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے عقیدے کا احترام کو لازمی قرار دیا جائے۔ ناجائز قابض کالے انگریزوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنے لوگوں کے عقیدوں پر بے جا تنقید کرنے سے گریز کیا جائے۔ فریقین کو اپنی عبادتوں پر انرجی صرف کرنے کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے تاکہ نفرت پھیلانے دوسروں کے مقدسات کی توہین کرنے کے لیے انرجی محفوظ ہی نہ رہے۔urdu news, British interests subject to our unrest

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں