قرارداد ! پروفیسر قیصر عباس
قرارداد ! پروفیسر قیصر عباس
لفظ قرارداد کا انگریزی ترجمہ “Resolution” ہے۔پارلیمانی اصطلاح میں قردار دراصل ایک سفارش یا تجویز ہوتی ہے اور اس کی حثیت صرف اخلاقی ہوتی ہے نا کہ قانونی ۔ہمارے ہاں دو قراردادوں نے بہت زیادہ شہرت پائی ایک پاکستان بننے سے پہلے اور ایک پاکستان بننے کے بعد سامنے آئی۔جو قردار پاکستان بننے سے پہلے پیش کی گئی اسے” قرار داد لاہور” کہا جاتا ہے بعد میں اسے ہندو پریس نے طنزاً” قراداد پاکستان “کہنا شروع کر دیا۔یہ قرارداد جب پیش کی گئی توآل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس جاری تھا جس میں مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے سیاستدان مولوی ابو القاسم فضل الحق جنہیں شیر بنگال بھی کہا جاتا٫ نے 23 مارچ 1940ء اس وقت کے منٹو پارک اور آج کے گریٹر اقبال پارک میں پیش کی ۔اس قرار داد کے ذریعے مسلمانوں نے انگریز حکمرانوں سے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا ۔قرارداد دراصل ایک سفارش تھی جو کہ مسلمانوں کی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔پاکستان بنا تو قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے 12 مارچ 1949ء کو اس وقت کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی جس کا نام” قرارداد مقاصد” تھا جسے 1956ءاور 1962ء کے آئین میں افتتاحیہ کے طور پر شامل کیا گیا مگر 1973ءکے آئین میں اسے باقاعدہ آئین کا حصہ بنا دیا گیا ۔
urdu column, column in urdu, the Resolution!
اس قرار داد کو پاکستانی آئین میں “میگنا کارٹا”کی حثیت حاصل ہے۔خاص کر دستور پاکستان کو اسلامی رنگ دینے میں اس قرارداد کا بہت زیادہ کردار ہے۔آج کل پاکستان میں ایک قرارداد کا ہر طرف شور و غوغا ہے ۔بلکہ اس قرارداد کو لیکر ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔یہ قرارداد ایوان بالا یعنی سینیٹ کے ایک رکن سنیٹر دلاور خان نے پیش کی جس میں اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں عام انتخابات کو ملتوی کر دیا جائے۔پاکستان کی پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں ایوان بالا کو سینٹ کہتے ہیں اور اس کے اراکین کی تعداد 104 ہے ۔چونکہ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں صوبوں کو آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اس لئے سینٹ میں تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر نمائندگی دے کر اس آئینی تصفیہ کا حل کیا گیا ہے کہ یہ نہ ہو جس صوبے کی آبادی زیادہ ہو وہ اپنی مرضی کی مطابق قانون سازی کرلے جب کہ چھوٹے صوبوں کا استخصال ہوتا رہے ۔اس مسئلے کو روکنے کے لئے ایوان بالا میں یکسانیت کے اصول پر عمل کیا گیا ہے۔بہرحال جس وقت دلاور خان نے یہ قرارداد پیش کی اس وقت ایوان میں صرف 14ارکان موجود تھے۔ یوں 104 اراکین رکھنے والے ایوان نے اپنے 90اراکین کی غیر حاضری کے باوجود قرارداد “کثرت رائے “سے منظور کر لی۔اب یہ کس کی معصوم خواہش ہے کہ انتخابات کا التوا ممکن ہوجائے؟ کیونکہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات کے باوجود اس حق میں نہیں کہ انتخابات ملتوی ہوں ۔مولانا فضل الرحمن اس حق میں ہیں کہ چونکہ موسم کی شدت اور خیبرپختونخوا میں لا اینڈ آرڈر کی وجہ سے انتخابات چند ماہ تک ملتوی کئے جائیں مگر دلاور خان کی قرارداد میں جو مطالبہ کیا ہے مولانا بھی اتنی طوالت کے قائل نہیں ہیں۔دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی انتخابات کے التواء کی سختی سے تردید کی ہے اور 8فروری کو ہی الیکشن کروانے کا اعادہ کیا ہے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلے کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صدر مملکت جناب عارف علوی سے مشاورت کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا اس کے بعد 8فروری 2024 کا دن پولنگ کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔سوال یہ ہے کہ اگر انتخابات ملتوی ہوتے ہیں تو سپریم کورٹ کا اس معاملے میں کیا ردعمل ہوگا؟کیونکہ الیکشن کروانے کے متعلق سپریم کورٹ کا ہی حکم ہے۔کیا ایک قرارداد سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے دیوار بن سکتی ہے ؟کیا ایک قرارداد کی مدد سے عوام کا حق حکمرانی چھینا جا سکتا ہے؟جب ہر طرف انتخابات کا نقارہ بج چکا ہے تو پھر التواء کا خیال کس عمر خیام کی زنبیل سے نکل آیا ہے؟یوں تو ہم بات کرتے ہیں ترقیاتی ممالک کی مگر یہ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان ممالک میں حالت جنگ میں بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں؟اس لئے دلاور خان کی سینٹ میں پیش کی گئی قرارداد کسی کی معصوم خواہش تو ہوسکتی ہے مگر بائیس کروڑ پاکستانیوں کی ترجمان نہیں ۔
پروفیسر قیصر عباس!
urdu column, column in urdu, the Resolution!