انٹرا پارٹی الیکشن!پروفیسر قیصر عباس
انٹرا پارٹی الیکشن!پروفیسر قیصر عباس!
گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز بنچ جس کی سربراہی چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ فرما رہے تھے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی نشان” بلے”سے محروم کر دیا یاد رہے پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مستردکیا تھا۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف تحریک انصاف نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی اس اپیل کا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا تھا۔مگر الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ۔جس کے نتیجے میں فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حق میں آیا ہے ۔یوں وہ امیدوار جن کے پاس تحریک انصاف کا ٹکٹ تھا وہ سارے آذاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ ایک اور تکنیکی چالاکی کی گئی ہے اس چالاکی سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔یاد رہے قومی اسمبلی کی 342نشتوں میں 60خواتین اور 10غیرمسلموں کے لئے مختص ہیں ۔ان 70نستوں پر متناسب نمائندگی سے سیاسی جماعتوں کو نشتیں دی جاتی ہیں اب چونکہ تحریک انصاف بطور جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی اس لئے مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کو نشتیں نہیں مل سکیں گی۔لیکن اس سارے معاملات میں کچھ سوالات ضرور اٹھتے ہیں اگر پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات شفاف طریقے سے نہیں کروائے جس پر الیکشن کمیشن کو اعتراض ہے تو کیا باقی جماعتوں نے اس اصول پر عمل کیا ہے؟یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو” موروثیت “والا “عارضہ” لاحق ہے۔پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں باپ ٫بیٹا اور پھوپھو فیصلے کر رہے ہیں سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں صرف انہیں لوگوں کی نمائندگی ہے جو ہاں میں ہاں ملانے کے عادی ہیں اور “حرف انکار”کی جرات نہیں کر سکتے اور جن لوگوں نے اختلاف کی جرات کی انہیں میدان سیاست میں عبرت کا نشان بنا دیا گیا ۔پاکستان کی مقبول سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کا حال بھی سامنے ہے صرف ایک خاندان کی اجارہ داری ہے اگر کوئی اس خاندان کے نوجوانوں سے اختلاف کرنے کی جرات کرتا ہے چاہے وہ کتنا ہی پرانا اور دیرینہ دوست رہا ہو اس پر پارٹی کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی مثال شاہد خاقان عباسی ٫چوہدری نثار مفتاح اسماعیل اورماہتاب عباسی ہیں۔ یہ لوگ برے اور مشکل حالات میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے مگر ان لوگوں کو اس لئے نظر انداز کیا گیا کیونکہ انہوں نے اپنی” بزرگی” کو سامنے رکھ کر نوجوانوں کے سامنے ہاتھ باندھنے سے انکار کر دیا ہے۔اے -این- پی کے سرپرست ولی خان نے اپنے جگر گوشے ایمل ولی خان کو اے این پی کی صدرات سونپ دی ہے انہیں پورے کے- پی -کے میں کوئی بھی ایسا رہنما نہیں ملا جو ایمل ولی خان کی برابری کر سکے حتی کہ بلور خاندان جس نے کئی لاشیں اٹھائی ہیں انہیں بھی اس قابل نہیں سمجھا گیا۔اسلام نے موروثیت کی نفی کی ہے مگر اسلام کا پرچم بلند کرنے والی اور مذہبی٫ سیاسی جماعت جے- یو-آئی نے بھی جتنی اہمیت مفتی محمود کے پوتے اسعد محمود کو دی ہے کسی کو نہیں دی۔ جے -یو آئی- میں کسی کارکن یا رہنما کی اتنی ہمت نہیں کہ وہ قبلہ مولانا فضل الرحمن کے سامنے کھڑا ہوسکے۔تحریک لبیک پاکستان کو دیکھ لیں اس کی قیادت بھی سعد حسین رضوی کے ہاتھوں میں ہے ۔اب سعد رضوی میں کون سی ایسی بات ہے جو بڑے بڑے اہلسنت کے جید علماء میں نہیں٫ تو فرق صرف یہ نظر آئے گا کہ چونکہ سعد حسین رضوی اس جماعت کے بانی اور قائد مولانا خادم حسین رضوی کے فرزند ہیں اس کے علاؤہ کوئی اور خاصیت ان میں نہیں ملے گی کہ انہیں اتنی بڑی جماعت کی قیادت سونپ دی جاتی ۔۔پاکستان کی صرف تین سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ موروثیت کی نفی کی ہے ایک جماعت اسلامی دوسری ایم کیو ایم اور تیسری پاکستان تحریک انصاف ۔آپ ان تینوں سیاسی جماعتوں پر جتنی مرضی تنقید کریں جتنے مرضی کیڑے نکالیں مگر موروثیت جیسی “قباحت “بہرحال ان تینوں جماعتوں میں نہیں ہے۔ رہا یہ مسلئہ کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشنز نہیں کروائے تو باقی جماعتوں نے اس میدان میں کونسا تیر مارا ہے؟ تمام جماعتوں میں خاندانی بادشاہت ہے۔ بادشاہ سیاسی منظرنامے سے غائب ہوتا ہے تو اس کا ولی عہد جماعت کی کمان سنبھال لیتا ہے ۔ہمارے سیاسی کارکن جن کی اک خاص غلامانہ سوچ کے مطابق تربیت کی جاتی ہے وہ نہ تو اپنے اپنے لیڈران سے کوئی سوال پوچھ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی وضاحت مانگ سکتے ہیں ۔اس لئے اسے معاشرے میں انٹرا پارٹی الیکشنز کا مطالبہ کرنا سمجھ سے بالا ہے۔
urdu column, column in urdu , Intra party election