تعلیمی ایمرجنسی، پروفیسر قیصر عباس
تعلیمی ایمرجنسی، پروفیسر قیصر عباس
کسی بھی ملک کا اخلاقی ٫معاشی اور تہذیبی معیار دیکھنا ہو تو اس ملک کے نظام تعلیم کے معیار کو لازمی جانچ لیں۔ہم اگر جاپان ٫امریکہ٫ چائنا اور یورپ کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں تو وہاں کا نظام تعلیم صرف سٹوڈنٹس کو” نمبر گیم” کے چکر میں نہیں ڈالتا بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی زور دیتا ہے اس کی وجہ سے وہاں اگر کوئی شخص ڈاکٹر بنتا ہے تو ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ اور ایک بہترین انسان بھی بنتا ہے ۔شبعہ طب کے ساتھ ساتھ اسے انسانیت کا درس بھی دیا جاتا ہے جن ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے وہاں ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ ایک ڈاکٹر آپ کو وہ میڈیسن تجویز کرے جس میں اس کا اپنا کمیشن ہو۔یہ تو ایک شبعہ کی بات ہے ملک عزیز میں زندگی کا کوئی شبعہ دیکھ لیں ہر جگہ ہیرا پھیری اور دو نمبری عروج کمال تک پہنچی ہوئی ہے ۔سب سے اہم چیز انسانی جان بچانے والی ادویات ہیں یہاں تو ادویات بھی جعلی بن بھی رہی ہیں اور بک بھی رہیں ہیں مطلب ادوایات بھی خالص نہیں ملتی ۔ٹیکس جمع کرنےوالوں کو دیکھ لیں ان کا کام ٹیکس کی “جمع آوری” ہے لیکن صاحب ثروت ٹیکس چوروں کو ٹیکس چوری کے ایسے” گر “اور “واردات” کے طریقے سکھائے جاتے ہیں کہ ٹیکس کی خطیر رقم جو قومی خزانے میں جمع ہونی ہوتی ہےاس کی بجائے ٹیکس چور” قلیل رقم “محکمہ ٹیکس کے “کاریگروں”کی “ہنر کاریوں”کے عوض ان کی جیبوں میں ڈال کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔پٹوار خانہ دیکھ لیں سب سے زیادہ عدالتوں پر دیوانی مقدمات کا بوجھ ہے اور دیوانی مقدمات میں بھی زمین کے مقدمات پہلے نمبر پر ہیں ۔جعلی انتقال ٫قبضہ مافیا کی ملی بھگت سے محکمہ مال کے افسران سیاہ کو سفید اور سفید کو ایسا سیاہ کرتے ہیں کہ اصل حقدار حق لینے کا انتظار کرتے کرتے “داعی اجل” کو لبیک کہہ دیتا ہے۔پاکستان کا سب سے بڑا امتحان یعنی “سی ایس ایس”پاس کرنے والے ذہین ترین دماغوں سے بھی ایسی ایسی کارگزاریاں سرزد ہوتی ہیں کہ بندہ چکرا کے رہ جاتا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت ہے ۔ہمارے ارباب اختیار” اپنے بندے” کو ایڈجسٹ کرنے کے چکر میں میرٹ کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔جب ایک ایسے شخص کو اس پوسٹ پہ لگایا جائے گا جس کا وہ اہل نہیں تو وہ ریاست کا کم اور اپنے” محسن “کا زیادہ وفادار ہوگا جس کی بدولت وہ متعلقہ پوسٹ پر براجمان ہے جس کا وہ اہل ہی نہیں۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ملک عزیز کے وزیر اعظم جناب شہباز شریف صاحب نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کردیا ہے ۔شعبہ تعلیم سے متعلق قومی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا”پاکستان کو ترقی کی راہ پر موڑنے کے لئے کئی مواقع سامنے آئے ہیں٫کسی بھی قوم کی ترقی تعلیم سے جڑی ہے۔” انہوں نے کہا “میں یہ بات پوائنٹ سکورنگ کے لئے نہیں کر رہا ٫ہم لازمی دو کروڑ 50لاکھ بچوں کو سکول میں داخل کروائیں گے ٫میں تمام وزراء اعلیٰ سے ملوں گا ٫تعلیم کے بغیر کردار نہیں بن سکتا اور نہ ہی تعلیم کے بغیر انڈسٹری چل سکتی ہے”۔وفاقی وزیر تعلیم جناب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے فرمایا”شبعہ تعلیم فوری توجہ کا متقاضی ہے اور اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا پر تشویش ہے۔”عزت مآب وزیراعظم اور وزیر تعلیم کی ساری ہی باتیں غور طلب ہیں لیکن ان پر عمل درآمد بھی ضروری ہے ۔ہمیں اپنے بچوں کو پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف لے کے جانا چاہئے نا کہ تعلیم برائے تعلیم کی طرف۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پیشہ ورانہ تعلیم کے حوالے سے اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔اگر کوئی سرکاری نوکری کا اشتہار آجائے چاہے یہ پوسٹ نائب قاصد کی ہو تو اس پر سینکڑوں امیدواروران نظریں جمائے ہوتے ہیں اور ان کی تعلیمی قابلیت بھی ماسٹرز سے کم نہیں ہوتی ۔ہمارے ادارے صرف اور صرف ڈگریاں بانٹ رہے ہیں میعار تعلیم کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہر سال CSS کے امتحان میں ہزاروں امیدوار حصہ لیتے ہیں لیکن کامیابی کا تناسب اڑھائی فیصد سے اوپر نہیں جاتا ۔اس کا کیا مطلب ہے؟ کہ ہمارے تعلیمی ادارے ڈگریاں تو بانٹ رہے ہیں لیکن علم” ڈلیور ” نہیں کر رہے ۔میعار تعلیم تو تب ہی بہتر ہوگا جب امتحانی نظام درست ہوگا۔امتحانات شروع ہوتے ہی “بوٹی مافیا “کا” سیزن” شروع ہوجاتا ہے اور یقین کریں نقل کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کر لئے جاتے ہیں کہ بندہ سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے جن کی ڈیوٹی نقل رکوانی ہے وہ ہی نقل کروا رہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی” سر پھیرا” اس مافیا کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کرے تو اس کےلئے بھی اتنے مسائل کھڑے کر دئیے جاتے ہیں وہ اکیلا شخص “مافیا” کے سامنے سرنڈر کر دیتا ہے۔اس لئے وزیراعظم سے گزارش ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ اداروں میں طلباء کی تربیت کے پہلو پر بھی توجہ دی جائے٫ نظام امتحانات کو بہتر کیا جائے ۔مسلہ صرف یہ ہے کہ موجودہ تصور تعلیم اس بات پر مبنی ہے کہ پڑھ لکھ لیا تو اچھی نوکری ملے گی جو کہ سراسر غلط تصور ہے ۔علم تو انسان کو اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا سکھاتا ہے٫انسانیت کادرس دیتا ہے جب کہ ہمارے نظام تعلیم میں اس پہلو کا فقدان ہے ۔ایک بار نہیں جتنی بار چاہے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کریں جب تک تعلیم بامقصد نہیں ہوگی اور اس میں تربیت کا پہلو نہیں ہوگا ایسے تمام اقدامات بے سود ہونگے۔
پروفیسر قیصر عباس!
پاکستان آئرلینڈ ٹی 20 کی سیزیز کا پہلے میچ میں پاکستان کو 5 وکٹوںسے شکست
urdu column, column in urdu, educational emergency,