ٹی ٹی پی اور افغانستان! پروفیسر قیصر عباس
ٹی ٹی پی اور افغانستان! پروفیسر قیصر عباس
ٹی ٹٰی پٰی پاکستان کا قیام دسمبر 2007ءمیں باقاعدہ طور پر عمل میں لایاگیا اور اس کے پہلے سربراہ ملا ہیبت اللہ تھے ان کے ساتھ ڈپٹی لیڈر کے طور پر مولوی فقیر محمد سامنے آئے۔افغانستان سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں طالبان کے نام پر تخریب کاری شروع کر دی گئی خصوصاً ضلع مہمند اورباجوڑ اس کا نشانہ بنے۔افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد نہ صرف تحریک طالبان افغانستان بلکہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے منسلک جنگجو پاکستان کے مختلف قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے تھے۔اس کہانی کا ایک اہم کردار صوفی محمد بھی ہے جس کا تعلق سوات سے ہے اور جس کا مطالبہ یہ تھا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں شرعی قوانین کا نفاذ کیا جائے صوفی محمد گرفتار ہوئے اگرچہ صوفی محمد بھی ایک سخت گیر مؤقف رکھتے تھے مگر جب وہ منظر سے غائب ہوئے تو اس خلاء کو ان کے داماد مولوی فضل اللہ نے پر کیا جس نے سوات میں ریاست کے اندر ریاست قائم کی اور ریاست پاکستان کی رٹ کو چیلنج کیا ۔اس وجہ سے ریاست پاکستان کو سوات میں فوجی آپریشن کرنا پڑا اور فوجی جوانوں نے سوات کو ان عناصر سے خالی کروانے کے لئے جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے ۔جب یہ آپریشن کامیاب ہوا تو منگل باغ اور مولوی فضل اللہ سمیت دیگر ٹی ٹی پی رہنماؤں نے افغانستان میں پناہ حاصل کی۔ٹی ٹی پی نے ہی 16دسمبر 2014ءکو پشاور میں آرمی پبلک سکول کو ٹارگٹ کیا جس کی وجہ سے ایک سو سے زائد طلبا اور اساتذہ شہید ہوئے۔ٹی ٹی پی کے خلاف مختلف ادوار میں چھوٹے بڑے آپریشنز کئے گئے جن میں آپریشن “راہ راست “٫”ضرب عضب” اور “رد الفساد “کافی مشہور ہوئے ۔ان آپریشنز میں بہت سارے فوجی جوان شہید ہوئے مگر ان آپریشنز کی بدولت ٹی ٹی پی کافی کمزور ہوئی اوراس کے راہنماؤں نے پاکستان سے راہ فرار اختیار کرکے افغانستان میں پناہ حاصل کی۔یہ وہ بھٹکے ہوئے اور گمراہ کن عناصر ہیں جنہوں نے اسلام کی تشریح اپنی مرضی سے کی اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر شخص کو واجب القتل قرار دیا ۔ان کے شر سے نہ سیاست دان بچے ٫نہ پرامن شہری اور نہ ہی متوازن گفتگو کرنے والے علماء دین۔ان لوگوں نے ہر اس شخص کو ٹارگٹ کیا جس نے ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ طالبان کی حکومت سے پہلے افغانستان میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کی صورت میں بھارت نواز حکومتیں قائم تھی۔بھارت نے پاکستانی قبائلی علاقوں سے ملحقہ افغان شہروں میں اپنے کونسل خانے قائم کئے ہوئے تھے ۔ان کونسل خانوں کی آڑ میں پاکستان میں دہشت گردی کو پھیلایا جا رہا تھا۔یاد رہے عموماً کونسل خانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ یہ دونوں ممالک میں باہمی تجارت کو فروغ دیتے ہیں۔اب سوال یہ بنتا ہے کہ بھارت کی افغانستان کے ساتھ کون سی تجارت جاری تھی؟اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ یہ کونسل خانے دراصل جاسوسی کے اڈے تھے جن کے ذریعے سے بھارتی خفیہ ایجنسی” راء”بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بدامنی و دہشت گردی کو فروغ دے رہی تھی۔خدا خدا کرکے بھارت نواز افغان حکومتوں کا خاتمہ ہوا اور طالبان ایک بار پھر سے افغانستان کے اقتدار کو سنھبالنے میں کامیاب ہوئے تو امید کی ایک کرن پیدا ہوئی کہ اب شاید سرحد پار سے جو دہشت گردی ٹی ٹی پی کروا رہی ہے نئی افغان حکومت اس کا کوئی سدباب کرے گی اور پاکستانی تحفظات دور کرے گی مگر طالبان جو کہ پاکستانی کوششوں سے دوبارہ اقتدار میں آئے تھے انہوں نے فوری طور پر پاکستانی مطالبات کو سرے سے ماننے سے ہی انکار کر دیا۔پاکستان کا موقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی جس کے لیڈران نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے ٫کے خلاف کارروائی کرے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔مگر افغان سرکار ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی سے انکار کر رہی ہے۔”تنگ آمد بجنگ آمد”پاکستانی حکام نے تمام غیر قانونی افغانیوں کو پاکستان چھوڑنے کے لئے ڈیڈ لائن دے دی اور اعلان کر دیا کہ جو افغانی پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہوگا 31 اکتوبر کے بعد اسے جبری افغانستان بیھج دیا جائے گا۔افغانستانی حکام نے پاکستان کے اس فیصلے پر احتجاج بھی کیا مگر اب کی بار پاکستان نے کسی بھی لچک کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چند روز قبل افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے ایک مدرسے کی دستاربندی میں شرکت کی ہے جس کی وڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے۔یہ تقریب کنڑ میں موجود ایک مدرسہ “دارالحجرا والجہاد”اور “جامعہ منبہ اسلام”میں ہوئی۔تقریب میں ریاست پاکستان کو مطلوب دہشت گرد عظمت لالا اور مولوی فقیر نے شرکت کی مزید براں اس تقریب میں متعدد افغان رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ایک طرف ترجمان افغان طالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں ٹھکانےموجود نہیں اور نہ ہی یہ تنظیم افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہے ۔جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے اگر پاکستان مخالف عناصر افغانستان میں موجود ہیں جس کے واضح ثبوت موجود ہیں تو پھر افغان طالبان حکومت ان کے خلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہے ؟اگر ٹی ٹی پی طالبان کے کنٹرول میں ہیں تو پھر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں یہ لوگ کیوں ملوث ہیں ؟کیا یہ افغان طالبان کی منشاء و مرضی کے بنا ہی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں یا افغان طالبان کی رضا مندی اس میں شامل ہے
Urdu column, column in urdu
“ٹی ٹی پی اور افغانستان! پروفیسر قیصر عباس” ایک تبصرہ