بابا کو کچھ نہیں پتا! پروفیسر قیصر عباس
بابا کو کچھ نہیں پتا! پروفیسر قیصر عباس
معروف اینکر پرسن اور صحافی حامد میر نے چند روز پہلے سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری صاحب سے کئی چبتے ہوئے سوالات کئے جن کے آصف علی زرداری نے کھل کر جوابات دئیے ۔حامد میر نے جہان انٹرنیشنل اور خارجہ پالیسی کے متعلق پوچھا وہی پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر کیا چل رہا ہے؟ اس کے بارے جاننے کی بھی کوشش کی۔ایک سوال جو حامد میر نے پوچھا وہ یہ تھا کہ “جب بلاول بھٹو زرداری بابوں کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو ان بابوں سے مراد کون سے بابے ہیں؟”اس کا جواب سابق صدر نے یہ دیا کہ” بلاول بھٹو مجھ سمیت تمام بابوں سے مخاطب تھے وہ نوجوان ہیں اچھا بولتے ہیں مگر تجربہ تو تجربہ ہوتا ہے آج کل کے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ” بابا کو کچھ نہیں پتا .”ایک اور سوال پوچھا گیا کہ “پیپلز پارٹی کا سربراہ کون ہے؟ تو اس پر آصف علی زرداری کا جواب تھا “پی پی پی یعنی پیپلز پارٹی پاکستان کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری ہیں جب کہ پی پی پی پی یعنی پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز پاکستان کا سربراہ میں ہوں اور بلاول کو ایم این اے کا ٹکٹ مجھ سے لینا پڑے گا۔”آصف علی زرداری نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ “پی ٹی آئی کی جانب سے پیپلز پارٹی کو چھ وزارتیں دینے کی پیش کش کی گئی تھی پی ٹی آئی مجھے (یعنی آصف علی زرداری کو) مائنس کر کے پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت بنانا چاہتی تھی حتیٰ کہ مجھے باہر جانے کی آفر بھی کی گئی مگر میں اپنے ورکرز کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا ۔”آصف علی زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ” پی ٹی آئی سے بطور جماعت کوئی مسئلہ نہیں ہے مسئلہ صرف ایک آدمی ہے اور اس آدمی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروائی۔”اس ساری صورت حال کو سامنا رکھا جائے خاص کر بلاول بھٹو زرداری کی تقریروں اور بیانات کو تو ایک تاثر تو یہ بنتا ہے کہ ایک طرف بلاول بھٹو زرداری اپنے ووٹرز کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میرے دل میں مسلم لیگ نون کے لئے نرم گوشہ موجود نہیں ہے اور دوسری طرف ان کے والد آصف علی زرداری کا شہباز شریف کے حق میں بیانات دینا سابقہ اتحادیوں کو یقین دلانا ہے کہ بلاول نوجوان اور جذباتی ہے اس کی کسی بات کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے کیونکہ آخر میں فیصلہ میں نے ہی کرنا ہے۔
urdu column, Baba knows nothing
آصف علی زرداری بلاول کے ذریعہ یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہونگے کہ پیپلز پارٹی میں” اینٹی شریف برادران”سوچ پائی جاتی ہے۔دوسرا نقطہ نظر اس کے برعکس ہے کہ ہو سکتا ہے واقعی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو میں اختلافات ہوں کہ پارٹی کو کون لیڈ کرے؟ اور پارٹی کے معاملات کون چلائے؟یہ اختلافات بہرحال پہلی بار سامنے نہیں آئے ماضی میں آصف علی زرداری میاں رضا ربانی جو کہ بےنظیر بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی رہ چکے ہیں اور چیرمین سینٹ بھی رہے ٫کو سینٹ کا ٹکٹ نہیں دینا چاہتے تھے مگر بلاول بھٹو نے اس بات پر Stand لیا اور رضا ربانی بلاول بھٹو کی حمایت سے سنیٹر بن گئے ۔ایک اور نقطہ یہاں پہ بہت اہم ہے کہ جب زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی تو ان تمام لوگوں کو جو کبھی بے نظیر بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی تھے اور پیپلز پارٹی میں اپنا اہم مقام رکھتے تھے ان سب کو “کھڈے لائن”لگا دیا ان قابل زکر شخصیات میں مخدوم امین فہیم ٫ناہید عباسی اور ان کے شوہر صفدر عباسی شامل ہیں۔ایک بات زرداری صاحب نے بہت خطرناک کی ہے وہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی پوری طرح “Trained” نہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری” Trained” نہیں ہیں تو انہیں اتنی بڑی پارٹی کا چیئرمین کیوں بنا دیا گیا ہے؟ اور اس سے بڑھ کر ایک ایسا شخص جو ابھی Trained ہی نہیں ہے اسے ملک کا وزیر خارجہ بنا دیا گیا اور وہ ملک بھی عام ملک نہیں بلکہ عالم اسلام کا واحد ایٹمی قوت آپ نے ایک Untrained شخص کو وزارت خارجہ جیسی اہم وزارت دے دی۔خبروں میں یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ آصف علی زرداری کے اس انٹرویو کے بعد بلاول بھٹو ناراض ہوکر دبئی روانہ ہوگئے ہیں جب کہ اس کے ایک دن بعد آصف علی زرداری بھی دبئی چلے گئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو کی اس روانگی میں واقعی ناراضگی کا پہلو شامل ہے اور آصف علی زرداری جو اس کے فوراً بعد دبئی گئے ہیں کیا وہ ناراض بلاول بھٹو کو منانے گئے ہیں؟یا پھر میڈیا میں رہنے کے لئے باپ بیٹا ایک پلان کے تحت یہ سب کر رہے ہیں اس کا جواب آنے والے چند روز میں مل جائے گا کہ یہ روٹھنا اور منانا ایک طے شدہ منصوبے کی تحت ہے یا بلاول کی واقعی یہ سوچ ہے کہ” بابا کو کچھ نہیں پتا”
پروفیسر قیصر عباس! urdu column, Baba knows nothing
گلگت بلتستان کو سیاحت کی مد میںکتنے پیسے ملتا ہے اور کون رکھتا ہے ، سب سامنے اگئے