قائم مقام صدر! پروفیسر قیصر عباس
قائم مقام صدر! پروفیسر قیصر عباس
1973 ء کے آئین کے مطابق صدر پاکستان کی غیر موجودگی میں سینٹ کا چیئرمین قائم مقام صدر ہو گا اور اگر چئیرمن سینٹ بھی دستیاب نہ ہو تو پھر قومی اسمبلی کا سپیکر قائم مقام صدر ہوگا۔دوسری طرف ملک میں پارلیمنٹ موجود نہ ہو یا پھر پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہو رہا ہو اور فوری طور پر کسی قانون کی ضرورت پڑ جائے تو سربراہ ریاست ایک “حکم نامہ ” آرڈیننس جاری کرتا ہے جس کے قابل عمل ہونے کی میعاد چار ماہ یعنی 120دن ہے ۔120دن کے اندر اندر اگر پارلیمنٹ اس حکم نامے کو منظور کر لے تو یہ قانون بن جاتا ہے اور اگر پارلیمنٹ اس حکم نامے کو منظور نہ کرے تو 120دن کے بعد یہ قانون ازخود ختم ہو جاتا ہے ۔آج کل چونکہ صدر مملکت ملک سے باہر ہیں اس لئے قائم مقام صدر کے عہدے پر چئیرمن سینٹ اور سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی براجمان ہیں اور ان کو کم بیش وہی اختیارات حاصل ہیں جو کہ صدر پاکستان کے پاس ہوتے ہیں ۔انہوں نے قائم مقام صدر پاکستان بنتے ہی چند حکم ناموں کا اجراء کیا ہے جس پر اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی سراپا احتجاج ہے ۔حکم ناموں میں پہلا حکم نامہ یہ ہے کہ نیب کی تحویل میں کسی بھی ملزم کو رکھنے کے لئے چودہ دن مقرر تھے لیکن ان چودہ دنوں کو 40دن کر دیا گیا ہے یادرہے پہلے یہ مدت 90روز تھی مگر پی ڈی ایم کی حکومت نے ہی اس دورانیہ کو کم کر کے 14دن کیا تھا اب پھر سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مشترکہ حکومت کے قائم مقام صدر نے اس تحویل کو 40دن مقرر کر دیا ہے پی ٹی آئی اس حکم نامے پر اس لئے احتجاج کر رہی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے اراکین کو اس بات کاخدشہ ہے کہ یہ قانون بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔دوسرا حکم نامہ الیکشن ٹریبونلز کے حوالے سے ہے الیکشن کمیشن کے حوالے سے ایک قانون موجود ہے کہ الیکشن ٹریبونل کا سربراہ ہمیشہ حاضر سروس جج کو لگایا جاتا ہے مگراب حکم نامے کی رو سے کسی بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو الیکشن ٹریبونل کا سربراہ لگایا جا سکے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سرکار الیکشن کمیشن کے ساتھ ملی بھگت کر کے کسی بھی پسندیدہ ریٹائرڈ جج کو لگا کر اپنی من پسند کا فیصلہ لے سکے گی۔ اور پھر الیکشن میں دھاندلی ثابت کرنا آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے مترادف ہوگا۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس قانون کا براہ راست فائدہ قائم مقام صدر کو بھی ہوگا کیونکہ ان کے خلاف بھی الیکشن ٹریبونل میں انتخابی بے ضابطگی کا کیس چل رہا ہے جو کہ ان کے مخالف امیدوار تیمور ملک نے دائر کیا ہوا ہے ۔اس کیس میں یہ بات زیادہ حیران کن ہے کہ 10000ہزار ووٹ مستردکئے گئے ہیں جب کہ سید یوسف رضا گیلانی صرف تین سو ووٹوں کی لیڈ سے یہ الیکشن جیتے تھے ۔قومی اسمبلی کا رکن بننے کے بعد انہوں نے اسلام آباد کی سینیٹ کی سیٹ سے الیکشن لڑا اور سنیٹر منتخب ہوئے اور بعد میں چئیرمن سینٹ بنا دئیے گئے اور اب قائم مقام صدر ہیں۔قائم مقام صدر نے ایک اور حکمنامے کا اجراء کیا ہے۔جس میں نیب کا ایسا افسر جو بد نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کے خلاف غلط کیس بنائے گا اس کی سزا پانچ سال سے کم کر کے دو سال کر دی ہے یعنی اب نیب کے افسران جن کو اس بات کا خوف تھا کہ غلط کیس بنانے کی صورت میں پانچ سال تک جیل کی ہوا کھانا پڑے گی اس خوف کو بھی ختم کردیا گیاہے دوسرے لفظوں میں نیب کے افسران کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا قدرے آسان بنا دیاگیاہے۔پاکستانی ادارے پہلے ہی سیاست کی نظر ہوچکے ہیں رہی سہی کسر ہمارے ارباب اختیار اس طرح کی قانون سازی کر کے نکال رہے ہیں ۔اگر قوانین فرد واحد نے بنانے ہیں تو پھر پارلیمان کی ضرورت کیا ہے؟ کیونکہ قانون سازی کرنا پارلیمان کی اولین ذمہ داری ہے اگر پارلیمان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی تو پھر انتخابات کروانے کا کیا فائدہ ہے ؟جمہوری ممالک میں ہر ادارے کے فرائض کا تعین کیا گیا ہوتا ہے اور حدود مقرر کی جاتی ہیں تاکہ ملکی نظام درست طریقے سے کام کر سکے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر ملک کی ترقی خواب بن کر رہ جاتی ہے۔
بلتستان پر ایک نظر، محمودہ شگری اسوہ گرلز کالج سکردو
اسکردو، ائیرپورٹ پر ایک لڑکی اور غیر مقامی لڑکے کو گرفتار کر لیا، اہم انکشافات سامنے آگئے
urdu column , Acting President!