کہانی کزن دوست، شمائل عبداللہ، گوجرانوالہ
قسط 15
کیسی ہو تم؟
دو دن بعد جب انعم کو ہوش آیا تو ایمن اس کے سرہانے بیٹھی تھی۔
“تم سے مطلب؟ تمہیں تو میں بوجھ لگنے لگی تھی نا، ایک ہی دن میں!”
انعم نے ناراضی سے کہا۔
“پاگل مت بنو، دوست بھی کبھی بوجھ ہوتے ہیں کیا؟ اور تم تو میری کزن بھی ہو!”
ایمن نے نرمی سے جواب دیا۔
“کیا دوست؟ مطلب سمجھتی ہو؟ دوست کا دوست کبھی اکتاتے نہیں ہیں… محبت سے بھی گہرا رشتہ مانا جاتا ہے دوستی کا!”
یہ کہتے ہی انعم کھانسنے لگی۔
“اچھا بس کرو، تم آرام کرو!”
ایمن نے تسلی دی۔
“لگ گیا نا سچ کڑوا…”
انعم نے نیم بند آنکھوں سے کہا۔
ایمن جانے ہی لگی تھی کہ پیچھے سے ایک بھاری بھرکم آواز آئی۔
ایمن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے! اس نے ہولے سے مڑ کر دیکھا —
انعم کا آدھا چہرہ انسان کا سا تھا، اور آدھا کالا، لال، چڑیل نما۔
ایمن مارے خوف کے کچھ بول نہ سکی اور فٹ سے کمرے سے باہر بھاگ گئی۔
“اچھا سن یار، ایمن کا ابھی ابھی فون آیا ہے، تو جا کر ذرا ماما کو ہسپتال سے گھر چھوڑ آ۔
میں تب تک لال صلیب ڈھونڈتا ہوں!”
نعیم نے اسلم کے گھر جا کر ساری صورتحال بتائی۔
“ٹھیک ہے، تو فکر نہ کر!”
اسلم نے جلدی میں جیکٹ پہنی اور ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا۔
“ہیلو، کیسی ہو؟”
اسلم نے ایمن سے پوچھا۔
“ٹھیک ہوں، تم بتاؤ، یہاں کیسے؟”
ایمن نے جواب دیا۔
“مجھے نعیم نے بھیجا ہے پھپھو کو لینے کے لیے۔ کیسی ہیں وہ اب؟”
“پہلے سے بہتر ہیں، ڈاکٹر نے کہا ہے پچیس منٹ بعد ہم ان سے مل سکتے ہیں۔
شام تک ڈسچارج بھی کر دیں گے۔”
ایمن نے بتایا۔
“اچھا اچھا، اور انعم کیسی ہے اب؟”
یہ سن کر ایمن خاموش ہوگئی۔
“بولو، کیا ہوا؟”
اسلم نے پوچھا۔ کوئی جواب نہیں۔
“ہیلو، تم سے بات کر رہا ہوں!”
اسلم نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی اور ہلکا سا دھچکا دیا۔
“ہ ہا ہاں… ہاں… ک کچھ کہا تم نے؟”
ایمن نے گھبرا کر کہا۔
“کیا ہوا، اتنا ڈر کیوں گئی ہو؟ میں نے تو بس انعم کا حال پوچھا ہے!”
“ہاں، ہاں، ٹھ ٹھیک ہے وہ…”
ایمن نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
“ریلیکس یار، ایسے بات کر رہی ہو جیسے میں نے انعم نہیں، کسی بھوت کا ذکر کر لیا ہو!”
اسلم نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ب… ب… بھوووووووووو… بھوت؟”
بھوت کا لفظ سنتے ہی ایمن اچھل پڑی، جیسے ہسپتال کے کمرے کا وہ منظر
اس کی آنکھوں کے سامنے دوبارہ زندہ ہوگیا ہو —
انعم کا آدھا انسانی، آدھا شیطانی چہرہ۔
—جاری ہے




