ناول: کزن دوست ، شمائل عبداللہ
قسط 18
کیا حال ہے ایمن؟؟؟
ایک انجانی سی آواز ایمن کے کانوں میں گونجی۔
“ک… ک… کو… کون ہو تم؟” ایمن نے ڈرتے ہوئے کہا۔
“تمہاری موت!”
وہی انجانی آواز گونجی اور ایک شیطانی قہقہہ فضا میں گونج اٹھا۔
ایمن کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ وہ دیوار سے پیچھے ہٹتی چلی گئی۔
“اے ہمارے دوست یسوع مسیح، میری مدد کر…”
ایمن نے دل ہی دل میں یہ الفاظ دہرائے۔
اچانک خالہ زبیدہ جیسے ہی ایمن کے جسم میں سمانے لگی، ایمن کے جسم سے ایک آگ کی لپٹ سی اٹھی۔ زبیدہ کی بدروح نے چیخ ماری اور دیوار سے ٹکرا کر غائب ہوگئی۔
ایمن کے لبوں سے بےاختیار ایک صدا نکلی:
“یسوع کی طاقت تمہیں جلا دے گی!”
دوسری طرف—
“آ بھی جاؤ مریم! کہاں رہ گئی ہو!”
نعیم یہ کہہ کر اندر سے دروازہ کھٹکانے لگا۔ جب دروازہ نہ کھلا تو وہ ہڑبڑا گیا۔
اس نے جیب سے لال صلیب نکالی اور دروازے پر رکھی۔
جیسے ہی صلیب دروازے کو چھوئی، دروازہ آہستہ آہستہ خود بخود کھل گیا۔
نعیم نے اندر قدم رکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
وہ ہوٹل جس میں وہ ٹھہرے تھے، اب کسی پرانے کھنڈر میں بدل چکا تھا۔
دیواروں پر جالے، فرش پر مٹی، اور ہوا میں تعفن پھیلا ہوا تھا۔
“یہ… یہ کیا ہو گیا؟”
نعیم کے لبوں سے بمشکل نکلا۔
وہ مسلسل مریم کو آواز دیتا رہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔
ہر کمرہ خالی، ہر راہداری ویران۔
بس ایک ٹوٹی کرسی پر کسی کے بیٹھنے کے نشانات… جیسے کوئی ابھی ابھی اٹھا ہو۔
دوسری طرف فون کی گھنٹی بجی۔
“ہیلو، ہیلو!”
راحیلہ نے بیمار سے لہجے میں کہا۔
“شکر ہے تم نے فون تو اٹھایا، اور بتاؤ کیسی ہو؟” نیلم کی آواز آئی۔
راحیلہ نے ٹھنڈی سانس بھری اور ساری کہانی بیان کر دی —
ایمن، خالہ زبیدہ، نعیم اور مریم سب کچھ۔
“اتنا سب کچھ ہو گیا اور تم نے بتایا بھی نہیں!” نیلم نے حیرت اور غصے کے ملے جلے لہجے میں کہا۔
“میں اور اکبر کل ہی پادری اصغر کو لا رہے ہیں!”
نیلم نے تیز لہجے میں کہا، اور لائن کٹ گئی۔
ہوا کا ایک جھونکا کھڑکی سے اندر آیا، کمرہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی — بلکہ اب شروع ہونے والی تھی۔
—جاری ہے
شگر کی تعمیر میں قیادت کا کردار، سلیم بیتاب شگری
novel, cousin friend




