ہماری انوکھی آزادی،  کرامت علی جعفری
ہر سال یکم نومبر کو ہم یوم آزادی مناتے ہیں اور ہماری آزادی بھی بڑی مزے کی ہے اس کو سنے تو سننے والے  کے ہوش اڑ جائیں کیونکہ ہماری آزادی انوکھی ہے۔
ہم آزاد ہے اپنے جوانوں کو ناچ گانوں کے محافل سجانے اور اپنے دینی اقدار کو پامال کرنے میں ۔
ہم آزاد ہے ہماری ملکیت کی زمین غیر کو بیچ کر سات سے آٹھ لاکھ روپے کی این سی پی گاڑیاں لیے پھر نے میں ۔ہم آزد ہے سکولوں , یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں میں سے امتحانات کی  تعطیل کرکے اشرافیہ کے رکھے ہوئے نائٹ شوز اور اپنے اقدار کا تماشہ دکھانے اور دیکھنے میں ۔ہم آزاد ہے اپنے تعلیمی اداروں میں سپورٹس گالا کے پروگرامات رکھ کر صنف نسوانیت کی پر دوں کو اپنے ہی ہاتھوں پامال کرنے میں ۔ہم آزاد ہے اپنے آبا واجداد کے  خون جگر دے کر حاصل کی ہوئی زمینوں کو مختلف فیسٹیول کے نام پہ اپنے ہی ہاتھوں دوسروں کو تحویل کرنے میں ۔ ہم آزاد ہے دینی تعلیم و عقائد کے دفاع اور معاشرے میں سیاسی سماجی اور مختلف قسم کے اخلاقی برائیوں کے قلع قمع کرنے والے افراد پر دشمن کے آلہ کار بن کر تنقید کرنے میں ۔
ہم آزاد ہیں اسی لیے کبھی ہم نے احکامات الاہیہ کو  بجا لانے کے لیے کسی دینی تنظیم یا تحریک کا ساتھ نہیں دیا ۔ آزاد ہے کہ ہمیں اپنے تمام حقوق جو ایک آزاد ریاست کے شہری کو حاصل ہونی چاہیے حاصل ہے اس بنانا پر کھبی حقوق کہ بات نہیں کہ ۔ ہم آزاد ہے ہمارے دینی عقائد بیان کرنے پر کوئی ہمیں راستے میں روک کرے جان سے مارنے کی دھمکی نہیں دیتے ۔
ہم آزاد ہے ہمارے کھانے سے لیکر کفن دفن کے سامان تک  ہم غیروں سے لیتے ہیں-  زندہ رہنے کا واحد کے کے ایچ میں روڈ پہ زندگی کے بھیک مانگنے میں ہم آزاد ہیں
 ہماری آزادی کا یہ عالم ہے کہ ہم ناچ گانے اور اپنے اشرافیہ کے سامنے مجرے کرنے کے علاؤہ تعلیم میں میرٹ ،موت کے کنویں کے مترادف راستے کا متبادل راستہ ، زمینوں پر بے جا قبضہ، حق حاکمیت ،حق خود مختاری ان پر بات کرنے سے ہمیں کوئی نہیں روکتا اور ہاں ہم آزاد ہیں مظلومین کی دفاع کرے اور معاشرے میں دبے ہوے طبقہ کے آواز غریبوں اور لاچاروں کی آوز بنے تو ہمیں باغی قرار نہیں دیتا اور ہمارے بابصیرت افراد کو عوام کے حقوق پر بولنے کی کھلی آزادی ہے ہمیں کوئی شیڈول فورتھ کا پابند نہیں کرتا اور نہ ہی ہمیں قوم کی آوز بننے پر ملک سے غداری کی سند دی جاتی ہے۔ ہم آزاد ہے ہمارے معدنیات ہم ہی انٹر نیشنل فورم پر سیل کرتے ہیں ۔ ہم آزاد ہے اور ہماری آزادی کا یہ عالم ہے کہ تین سالوں سے کوشش کرنے کے باوجود ایک وی سی کو ہم اپنی یونیورسٹی سے نکال نہ سکے ۔ہاں ہم آزاد ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں بچپن سے ہی ہماری عقائد کے کتابیں اورعناوین پڑھائیں جاتے ہے اور اسی مضامین اور عناوین کو ختم کرنے پر ہم اصل آزاد (ملحد) بن جاتے ہیں اور ہمارے آزادی کے نعروں سے ہمالیہ اور قراقرم کی بلند پہاڑ بھی شرما جاتے ہیں ۔ ہم آزاد ہیں اپنے شھداء کی یاد منانے میں اور ان کی یاد میں رکھے گئے پروگرامات میں مجرے کرنے اور تماشائیوں کے نظر کو جلب کرنے میں ہم آزاد ہے ہمارے پہاڑ ،ہماری جنگلات، ہمارے معدنیات ،ہمارے دریا ، اور ہمارے جتنے بھی قدرتی وسائل سے لیکر اپنی ذاتی ملکیتوں پر ابھی چالیس فیصد غیروں کا قبضہ ہوا ہے ۔ تو ہماری آزادی ابتدائی مراحل میں ہیں ابھی اس کو کامل کرنے میں ہم سب کو مل کر تعاون کرنا ہے تاکہ ہم جلد سوفیصد آزادی حاصل کر سکے اور اس کے ثمرات سے بھر پور لطف اندوز ہوسکے ۔ہم مکمل آزاد ہورہے ہیں خدا کے احکامات سے خارج ہوکر ہم نے اپنے آزاد ہونے کا ثبوت تو دے دیا اب اپنے زمینوں اور ملکیتوں سے بھی بے دخل ہو کر ہم نے مکمل آزاد قوم ہونے کا ثبوت دینا ہے اس کی چھوٹی سی مثال دو تین دن سال  پہلے شگر سے شروع ہو چکا ہے کہ جس نے بعض لوگوں نے  مکمل آزادی کے فکر کے لیے ساری زمین بیچ کر یہاں اغیار کو بسایا  ہے  اور اپ یہ لوگ آزاد ہے اگلے مرحلے میں اپنے دیگر  بھائیوں کو کہ جن کے پاس اپنی کچھ زمینں ہیں ان سے آزادی کے پروانے یعنی زمینوں پر دوسروں کو بسا کر  اور جو آئندہ چند ایک سال میں مکمل آزدی کے لیے اپنے زمینوں کو گاڑیوں اور چند روپیوں کے بدلے بیچیں گے ان کے ساتھ  مل کر مکمل آزاد ہونگے اور پھر بھرپور جشن ہوگا آزادی کا۔
 تحریر کرامت علی جعفری
independence day of Gilgit baltistan, Our Unique Independence 
آپ نے فزکس کیوں انتخاب کیا؟ ، فیاضی
علیمہ خان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک، بینک اکاؤنٹس منجمد، گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
گلگت بلتستان، صحت کی محرومی اور میڈیکل کالج کا وعدہ، ڈاکٹر ژےرینگ شگری
 
         
        




 
                             
                             
                             
                             
			 
							 
							 
							 
							 
							