شیخ چلی کے خواب۔ آمینہ یونس
میں کچھ دنوں سے سوچ رہا تھا کہ مجھے بھی سیاست میں آنا چاہیے تاکہ غریب عوام کی خدمت کر سکوں۔ دن رات ان کی مشکلات دور کرکے انہیں مہنگائی سے نجات دلاؤں، ملک کا قرضہ اتاروں اور پاکستان کو سپر پاور بنا دوں۔ یہی سوچتے سوچتے رات کو سو گیا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ الیکشن کی گہما گہمی ہے۔ دوست احباب میری کمپین چلا رہے ہیں اور میں جلسے جلوسوں میں تقریریں کر رہا ہوں۔ دن میرا بہت مصروف گزرتا اور رات بھی دن سے مختلف نہیں ہوتی۔ گاؤں والے، محلے دار، اور حلقے کے لوگ مجھے یقین دلا رہے تھے کہ:
“شیخ صاحب، آپ کی جیت یقینی ہے۔ آپ ایک مشہور شخصیت ہیں اور آپ کے دل میں غریب عوام کا درد ہے۔ آپ کی نیت صاف ہے اور جس کی نیت صاف ہو، اللہ بھی اس کی مدد کرتا ہے۔”
میں دن رات محنت کرتا رہا، یہاں تک کہ الیکشن کا دن آ پہنچا۔ میں پُرامید تھا کہ جیت میرا مقدر ہوگی۔ صبح سے میں ہر پولنگ اسٹیشن کا خود دورہ کر رہا تھا اور ہر جگہ سے جیت رہا تھا۔ رات کے آٹھ بجے فائنل رپورٹ آ گئی۔ میں بھاری اکثریت سے جیت گیا تھا! میرے رشتہ دار، حمایتی، اور سپورٹرز “شیخ چلی جیت گیا” کے نعروں میں مجھے کندھے پر اٹھا کر گھما رہے تھے۔ میں بھی جوش کے عالم میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر سب کو جواب دے رہا تھا۔
اچانک میرا ہاتھ کسی چیز سے ٹکرایا اور درد کی شدت سے آنکھ کھل گئی۔ حقیقت یہ تھی کہ میں اپنے گھر میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ اردگرد لوگوں کا ہجوم نہیں بلکہ خواب کی ٹوٹی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں۔ میرا عوام کے لیے درد مند دل ایک آہ بھر کر رہ گیا۔ میں خود سے کہنے لگا:
“شیخ، تمہارا سوچنا تو اچھا تھا، لیکن خواب اور حقیقت کے درمیان فاصلہ بہت لمبا ہے، اور اس فاصلے کو عبور کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ تبھی تو خواب پورے ہوں گے۔”
Fiction writer in Urdu