news خبر خبریں نیوز landscape 1758250673383 0

فیصلہ آپ کا ہے ۔ ایس ایم مرموی
کل کسی کا لکھا ایک مضمون پڑھ رہا تھا موصوف کا کہنا تھا کہ اگر زندگی جینی ہے تو خاموش رہیں طاقت ور کے سامنے بھیگی بلی بن جائیں اور کسی طرح بھی مزاحمت کا نہ سوچیں یہ اصول میرے نزدیک طاقتور سے نہ ٹکراؤ دراصل جبر کو دوام دینے کا بہانہ بن جاتا ہے۔ اگر یہی منطق اپنائی جائے تو تاریخِ انسانیت کے بڑے انقلابات کبھی جنم نہ لیتے۔ کربلا کی مثال اس پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے جانتے ہوئے کہ ظاہری طاقت یزید کے پاس ہے خاموشی کو اختیار نہیں کیا۔ اگر وہ صرف اپنی جان بچانے کو اصول بناتے تو بلاشبہ کربلا نہ ہوتی، لیکن پھر حق اور باطل کی لکیر بھی مٹ جاتی۔ امام نے یہ پیغام دیا کہ طاقت کا معیار لشکر یا ہتھیار نہیں بلکہ اصول اور حق پر ڈٹ جانا ہے۔ خاموشی اور بزدلی میں یہی فرق ہے کہ بزدلی ظلم کو طاقت بخشتی ہے جبکہ مزاحمت اگر وہ چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو ظالم کے چہرے سے نقاب کھینچ لیتی ہے۔ دوسری بڑی مثال ایران اسرائیل جنگ کی ہے اگر ایرا یہ سمجھ کر خاموش ہوجاتا اسرائیل طاقت ور ہے اسکے ساتھ بڑی بڑی طاقتیں تو آج ایران کو اسرائیل صفہ ہستی سے مٹا دیتا یا اسپر قبصہ جما چکا ہوتا ایران کی مداخلت یعنی مزاحمت کی وجہ سے آج ایران سر اٹھا کر جی رہا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں آج جو فرعون مسلط ہیں، وہ اسی لیے ہیں کہ عوام نے اپنی زبان اور ارادے کو قید کر لیا ہے۔ ہم اپنی بقا کو اصل سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موت بہرحال آنی ہے، لیکن بزدلی کے ساتھ مرنا ایک طرح کی زندہ لاش بننا ہے اور مزاحمت کے ساتھ مرنا تاریخ میں امر ہونا ہے۔
موجودہ حالات میں یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ ایک عجیب منطق گھڑی گئی ہے طاقتور سے مت ٹکراؤ اپنی حیثیت کو پہچانو، ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ یہ جملہ ہر اس دربار کی دیوار پر لکھا دکھائی دیتا ہے جہاں عوام کو غلام بنائے رکھنے کا منصوبہ تیار ہوتا ہے۔ یہ سوچ ان حکمرانوں کی تلوار نہیں بلکہ رعایا کے دل میں اُترنے والا خوف ہے جو نسلوں کو جھکنے پر مجبور کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہی اصول ابدی حقیقت ہوتا تو کربلا کی مٹی پر تاریخ کا سب سے بڑا معرکہ کبھی برپا نہ ہوتا۔ یزید کے پاس سلطنت لشکر اور ہتھیار تھے۔ امام حسینؑ کے پاس چند رفقاء اور بھوکے بچے۔ طاقت کے پیمانے سے دیکھا جائے تو ٹکراؤ کا کوئی جواز نہ تھا۔ لیکن حسینؑ نے اصولوں کی میزان پر فیصلہ کیا اور بتایا کہ طاقت کا اصل سرچشمہ ضمیر اور حق ہے نہ کہ ہتھیاروں کی جھنکار یہی وہ لمحہ تھا جب کربلا نے دنیا کو دو دائمی کیمپوں میں بانٹ دیا
ایک طرف وہ لوگ جو طاقت کے سائے میں جیتے ہیں۔اور دوسری طرف وہ لوگ جو حق کے پرچم تلے مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔ بزدلی اور خاموشی کا مطلب یہی ہے کہ ظالم کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُس کی طاقت کو بڑھاؤ۔ یہ خاموشی فرعون کے تخت کے پائے مضبوط کرتی ہے۔ یہ خوف قوموں کو زندہ لاشوں میں بدل دیتا ہے۔ مگر مزاحمت چاہے کمزور کی طرف سے ہو یا اکیلے انسان کی طرف سے ظالم کے چہرے سے نقاب نوچ لیتی ہے۔ امام حسینؑ نے یہی کر دکھایا انہوں نے ظاہری شکست کو قبول کیا مگر باطنی جیت کو اپنے نام کر دیا اسلئے چودہ سو سال بعد بھی انکی عظمت بہادری کے چرچے ہیں جبکہ یزید پر لعنتیں ہی لعنتیں آج ہمارے ملک میں جو فرعون مسلط ہیں جو قوم کو بھوک، خوف اور غلامی کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں، وہ اسی لیے قائم ہیں کہ ہم نے خاموشی کو حکمت سمجھ لیا ہے اپنی جان کی امان سمجھ لیا ہے ہم نے اپنے بچوں کو یہی سبق دیا کہ طاقتور کے سامنے سر جھکا دینا ہی عقل مندی ہے۔ مگر یہ عقل نہیں یہ وہ بزدلی ہے جو نسلوں کو گونگا اور اندھا کر دیتی ہے۔
یاد رکھیں موت بہرحال آنی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی موت آپ کو بزدلوں کے قافلے میں ڈال دے، اور کوئی موت آپ کو تاریخ کے روشن باب میں جاوداں کر دے۔ کربلا کا سبق یہی ہے کہ زندگی کو لمبائی سے نہیں بلکہ وقار سے ناپا جائے۔ امام حسینؑ نے سکھایا کہ سر کٹ سکتا ہے مگر اصول نہیں جھک سکتا یہ فیصلہ ہمیں آج بھی کرنا ہے کربلا ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ اگر عددی طاقت کم بھی ہو تو حق کی روشنی اندھیرے کے لشکر کو رسوا کر دیتی ہے۔ اب یہ فیصلہ آپکا ہے سر جھکا کر جینا ہے یا سر اٹھا کر
Column in Urdu

50% LikesVS
50% Dislikes

فیصلہ آپ کا ہے ۔ ایس ایم مرموی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں