news خبر خبریں نیوز landscape 1758446284456 0

بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور اس کا حل۔ آمینہ یونس سکردو بلتستان
بے روزگاری کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے، یہ ہر دور میں موجود رہا ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے لوگ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ، باشعور اور محنتی ہوا کرتے تھے۔ وہ کسی کے سہارے نہیں بیٹھتے تھے، نہ ہی قسمت کو کوستے تھے۔ جو بھی کام میسر آتا، اسے عزت سے کرتے، چاہے ہوٹل پر کام ہو، کھیتوں میں مزدوری ہو یا دیہاڑی دار مزدور کا کام۔ ان کے اندر غیرت اور ہمت ہوتی تھی۔ وہ تعلیم حاصل کرتے تو صرف اس لیے نہیں کہ ڈگری لے کر سرکاری نوکری کا انتظار کریں، بلکہ اس لیے کہ وہ اپنے علم کو عمل میں لا کر خود کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔

آج کے دور میں حالات کافی بدل چکے ہیں۔ نئی نسل کی سوچ میں تبدیلی آ چکی ہے۔ اب محنت کو محض غریبوں کا کام سمجھا جاتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر صرف قلم ہلائے اور تنخواہ ملتی رہے۔ محنت کرنے سے گھبراہٹ ہوتی ہے، جسمانی کام کو شرمندگی سمجھا جاتا ہے، اور خود کو ایک مخصوص “لائف اسٹائل” کا عادی بنا لیا گیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اب لوگ رزق کی تلاش میں نہیں نکلتے، بلکہ رزق کو خود چل کر آتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور انسٹاگرام نے نوجوانوں کو خوابوں کی دنیا میں مصروف کر دیا ہے، اور حقیقت سے دور کر دیا ہے۔

والدین دن رات ایک کرکے بچوں کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے اکثر نوجوان اس تعلیم کو صرف “نوکری” حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، نہ کہ خود کچھ کرنے کی طاقت۔ جب نوکری نہیں ملتی، تو مایوسی، بےچینی اور الزام تراشی شروع ہو جاتی ہے۔ حکومت کو برا بھلا کہنا، سسٹم کو کوسنا، قسمت کو برا کہنا ایک عام رواج بن چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ روزگار کے مواقع فراہم کرے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی میں حکومت ہر کسی کو نوکری نہیں دے سکتی۔

ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ روزگار صرف سرکاری ملازمت یا کسی پرائیویٹ کمپنی کی مینیجر کی کرسی کا نام نہیں ہے۔ روزگار کا مطلب ہے: اپنی محنت، ہنر اور قابلیت کے ذریعے رزقِ حلال کمانا۔ جس کا جو ہنر ہے، وہ اس سے روزی کما سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر کوئی آفس میں بیٹھے۔ دنیا میں ہر طرح کے کام کی گنجائش موجود ہے، اور ہر جائز کام قابلِ عزت ہے۔

آج ضرورت ہے ایک ایسے شعور کی جو نوجوانوں کو یہ باور کرا سکے کہ محنت میں ہی عظمت ہے۔ اگر ہوٹل پر برتن دھونا ہے تو بھی رزقِ حلال ہے، اگر سڑک پر ریڑھی لگا کر سبزی بیچنی ہے، تو بھی عزت کا کام ہے۔ ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک ہی لائن میں لگ کر زندگی برباد کر رہے ہیں۔ ہر نوجوان کو اپنے اندر جھانکنا ہوگا، یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے اندر کیا صلاحیت ہے، اور پھر اسی پر کام کرنا ہوگا۔ اپنے راستے خود تلاش کرنے ہوں گے۔

رزق کی گارنٹی اللہ تعالیٰ نے دی ہے، لیکن کوشش اور محنت انسان کے ذمے رکھی ہے۔ آج کا نوجوان اگر سمجھ لے کہ جو بھی کام عزت اور حلال کمائی کا ذریعہ ہے، وہی کامیابی ہے، تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ نوکری کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، خود کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ چاہے چھوٹا کاروبار ہو، آن لائن فری لانسنگ ہو، یا کوئی ہنر جیسے درزی، پلمبر، ویلڈر، الیکٹریشن وغیرہ۔ ہر کام میں عزت ہے، بس سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں تعلیم کے ساتھ ہنر سکھانے پر بھی زور دینا ہوگا۔ صرف ڈگری ہاتھ میں ہونا کافی نہیں، جب تک اس کے ساتھ کوئی عملی مہارت نہ ہو۔ اسکول اور کالجز میں ہنر مندی کے کورسز شامل کیے جائیں تاکہ نوجوان عملی زندگی کے لیے تیار ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ چھوٹے کاروبار کے لیے آسان قرضے، تربیتی پروگرامز اور روزگار کی راہیں ہموار کرے۔

آخر میں، نوجوانوں سے یہی کہنا ہے کہ خواب ضرور دیکھیں، لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے محنت، صبر، ہمت اور عزتِ نفس کو ساتھ لے کر چلیں۔ یاد رکھیں، بغیر محنت کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اگر صرف موبائل کی اسکرین پر انگلیاں چلاتے رہیں گے، تو زندگی کے اصل میدان میں پیچھے رہ جائیں گے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سب بحیثیت قوم جاگ جائیں۔ روزگار کے لیے نکلیں، چاہے چھوٹے سے کام سے شروعات کیوں نہ ہو۔ کیونکہ چھوٹے قدم ہی آگے لے جاتے ہیں۔ اور رزقِ حلال سے ہی بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہے۔ جب معاشرہ خوددار، محنتی اور باہمت افراد سے بھر جائے گا، تب نہ صرف بے روزگاری کم ہوگی، بلکہ خوشحال، مضبوط اور متوازن معاشرہ جنم لے گا
Columns in Urdu، Rising unemployment and solution

50% LikesVS
50% Dislikes

بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور اس کا حل۔ آمینہ یونس سکردو بلتستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں