معاشرے کا مظلوم طبقہ ( مدارس کے علماء ، خواہران اور آخوند حضرات) طہٰ علی تابشٓ بلتستانی
میرے حال ہی میں لکھے گئے آرٹیکل ( پرائیویٹ اسکول کے سستے اسا تذہ) کے بعد مجھے مختلف لوگوں کے طرف سے میسیجز موصول ہو رہے تھے لیکن میں حیرت میں تب پڑھ گیا جب وادی اسکردو کے کسی مدرسے کے عالم نے مجھے میسج کیا ۔ ان کے مطابق وہ ایک دینیات سنٹر چلا رہے ہیں اور تقریباً بارہ سال ہوگئے ہیں ، اور گاؤں کی کمیٹی کی طرف سے اسے ماہانہ تین ہزار دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک خاتون نے مجھے میسج کر کے کہ رہی تھی کہ وہ پچھلے سات سالوں سے اپنی مدد آپ دینیات سنٹر چلا رہی ہے ، پچاس روپے ماہانہ فیس رکھی ہے ، والدین وہ بھی نہیں دیتے ۔
اسی طرح کچھ علماء سے میری ملاقات ہوئی ، جو مختلف مدارس میں بچّوں کو پڑھا رہے ہیں ، عقائد، اور دیگر سبجیکٹس میں ایم فل کی ڈگری لی ہوئی ہے ، جبکہ مدرسہ والے انہیں ، دس ہزار کا بارہ ہزار روپے دے رہے ہیں ۔ ہمارے نزدیک تو علماء وہ ہیں جو بڑے بڑے عبایا اور عمامہ پہن کے بڑے جوشیلا تقریر کریں اور لوگوں سے واہ واہ وصول کریں اور جاتے وقت لاکھوں روپیہ تحائف کے نام پر لے کر چلا جائے ۔
کتنے افسوس کا مقام ہے ، جو علماء کرام آپ کے بچوں کو دین سیکھا رہے ہیں ، انہیں مشرک ہونے سے بچا رہے ہیں اور انہیں دنیا اور آخرت دونوں کے لیے کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ہم انہیں معاشرے کے خادم سمجھ کے رکھے ہیں ۔ آپ پانچ ہزار ماہانہ فیس اسکول کو دینگے لیکن کچھ پیسے مدارس کے علماء کرام کو دینے میں آپ کو موت پڑتا ہے ۔
پھر کہتے ہیں ہمارے بچے بگڑ رہے ہیں، چرسی بن رہا ہے ، ناسخ ہوگیا ہے ، معاشرے کے لیے ناسور بن چکا ہے ۔
ارے بھئی۔
کیوں نہیں بنے گا ، جب تربیت کرنے والے علماء کو آپ پاؤں تلے روند ڈالنے کی کوشش کرینگے تو آہ تو لگیں گے ، وہ بھی بہت بُری آہ ، جس کا پچھتاوا آپ کو ساری عمر رہے گا ۔
باقی میں مرکز کی تو بات ہی نہیں کرتی ، لاکھوں ، کروڑوں روپیہ مال غنیمت کے زد میں جمع ہو جاتا ہے ، اگر ان سے مسجدیں اور دوکانیں ہی بنوانے ہیں تو بنواتے رہیں ، یہ مال امام ان غریب علماء کرام کے لیے تھوڑی ہے ۔
بس مسجدیں بناتے رہیں ، بڑے بڑے امام بارگاہیں بناتے رہیں ، لاکھوں روپیہ باہر سے آئے ہوئے علماء پر اور نیاز پر خرچ کریں لیکن مسجدوں میں موجود مؤذنوں ، اماموں کو ، مدارس میں پڑھانے والے علماء کرام ، آخوند حضرات ، اور خواہران کو ان کا حق نہ دیں ۔
خدارا !!
ان کے بھی بال بچے ہیں ، انہیں بھی معاشرے کے ساتھ چلنا ہے ، خدا نے پیٹ ان کو بھی دیا ہوا ہے ، ان کے بچے بھی اسکول ، کالجز اور یونیورسٹیز میں جاتے ہیں ۔
اگر آپ انگریزی اسکول میں بچے کے فیس پانچ ہزار دے سکتے ہیں تو کم از کم تین ہزار اس عالم کو بھی دیں جو اسے دین ، قرآن ، تجوید ، عقائد اور احکام پڑھاتے ہیں ۔
آپ کے پچاس روپیہ تو آج کل آپ کی ہی بچے اسکول لنچ تک کے لیے نہیں لیتے ۔
یہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے ، نہ ہم انہیں کوئی دوسرا کام کرنے دیتے ہیں اور نہی انہیں ان کا حق دے دیتے ہیں ۔
خدارا ، تھوڑا احساس کریں ، پھر بعد میں یہ نا کہنا کہ ہمارے بچے راہ راست سے ہٹ گئے ۔
اور مرکز اور دیگر انجمن کو چاہئے کہ ان علماء کرام کی نشاندھی کر کے مال امام میں سے کچھ حصّہ مجتہدین سے اجازت لیکر انہیں بھی دیے دیں ۔
یہ ان کا حق اور ہم سب کا زمہ داری ہے ۔
جزاکم اللہ
طہٰ علی تابشٓ بلتستانی
column in urdu, Oppressed Class of Society