نوجوان نسل اور ہمارا اجتماعی فریاد یا زوال ، یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان، جو کبھی اپنی برف پوش چوٹیوں، شفاف دریاؤں اور مہمان نوازی کے باعث دنیا بھر میں پہچانا جاتا تھا، آج ایک ایسے زخم کا شکار ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ حالیہ مہینوں میں جو سانحات ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ جرائم کی وہ بھیانک لہر جو بڑے شہروں میں برسوں سے موجود تھی، اب ان پرامن وادیوں میں بھی رنگ پکڑ چکی ہے۔
اب یہ صرف کہانی یا افواہ نہیں رہی کہ “مار کر پھینک دینا” ایک خوفناک حقیقت بن چکی ہے۔ کل ہی کاشان نامی ایک نوجوان کا دل دہلا دینے والا قتل ہوا، اور اس سے پہلے دنیور مچوکال کے چودہ سالہ معصوم بچے کو وحشیانہ تشدد کے بعد زندگی سے محروم کر دیا گیا۔ ان دو دل خراش واقعات نے گلگت بلتستان کے باسیوں کے دل ہلا کر رکھ دیے۔ عوامی حلقے اس حقیقت پر گہرے صدمے میں ہیں کہ جس خطے کو وہ امن و سکون کی وادی سمجھتے تھے، وہاں بھی خون بہانے والے درندے آزاد گھوم رہے ہیں۔
یہ حادثات محض پولیس رپورٹوں یا خبروں کی زینت نہیں۔ یہ دراصل ہماری اجتماعی غفلت، والدین کی عدم توجہی، اور سماجی اقدار کے ٹوٹنے کی علامت ہیں۔ جب والدین اپنے بچوں کے دوستوں، ان کی محفلوں اور ان کے بدلتے رویوں پر توجہ دینا چھوڑ دیتے ہیں، جب گھر میں اعتماد اور مکالمہ ختم ہو جاتا ہے، تو وہ معصوم ذہن باہر کے اندھیروں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی غفلت آج کے اس زہر آلود ماحول کو تقویت دے رہی ہے۔
گلگت بلتستان کی نوجوان نسل اس وقت کئی محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ ایک طرف روزگار کی کمی اور معاشی دباؤ ہے، دوسری طرف جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا بے قابو جال۔ یہ خلا درندہ صفت عناصر کے لیے موقع فراہم کرتا ہے۔ وہ لوگ جو بظاہر دوست بن کر قریب آتے ہیں، معصوم بچوں کو نشے، آسان پیسے اور جھوٹے خوابوں کے جال میں پھنسا کر ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور پھر ان کے ذہنوں اور جسموں دونوں پر قبضہ جما لیتے ہیں۔
یہ صرف قتل کی کہانی نہیں بلکہ ایک بڑے اور خطرناک عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہے: انسانی اسمگلنگ۔ دنیا بھر میں یہ مافیا ایسے علاقوں کی تلاش میں رہتا ہے جہاں غربت، تعلیم کی کمی اور قانون کی کمزوری اسے آسان شکار فراہم کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی یہ عناصر جگہ بنا رہے ہیں۔ معصوم لڑکے اور لڑکیاں کبھی جھوٹی ملازمت کے لالچ میں، کبھی تفریحی دوروں کے بہانے، اور کبھی محض دھوکے کے ذریعے ایسی راہوں پر لے جائے جاتے ہیں جہاں ان کی واپسی ممکن نہیں رہتی۔ کسی کو جبری مشقت پر بیچا جاتا ہے، کسی کو جسمانی غلامی کے لیے۔ یہ تجارت اربوں روپے کا کاروبار ہے جس کا ایندھن انسان کا جسم اور روح ہے۔
جسمانی استحصال اس زہر کا سب سے ہولناک چہرہ ہے۔ یہ جرم جنس کی قید سے ماورا ہے۔ آج معصوم لڑکیاں ہی نہیں، کم عمر لڑکے بھی ان درندوں کے شکار ہو رہے ہیں۔ یہ عناصر پہلے دوستی اور محبت کے میٹھے الفاظ بولتے ہیں، پھر نشہ آور اشیاء یا تحائف کے ذریعے ذہن کو مفلوج کرتے ہیں۔ جب شکار مکمل طور پر ان کے قابو میں آ جائے تو وہ جسمانی ہوس کی اندھی راہوں پر دھکیل دیا جاتا ہے۔ کئی معصوم زندگیاں یہ بوجھ برداشت نہ کر سکیں اور خودکشی کو نجات سمجھ بیٹھیں۔ ہر ایسی خودکشی ہمارے معاشرے کی اخلاقی موت ہے۔
یہ حالات صرف پولیس یا حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے ضمیر پر سوال ہیں۔ والدین، اساتذہ، مذہبی رہنما، اور مقامی قیادت—سب کو اس اندھیری لہر کے سامنے ڈٹنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے دوستوں، ان کی سرگرمیوں اور ان کے آن لائن روابط پر گہری نظر رکھیں۔ اسکولوں اور کالجوں کو محض کتابی علم دینے کے بجائے کردار سازی اور اخلاقی تربیت کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ مذہبی اور سماجی قیادت کو اپنے خطبات اور اجتماعات میں ان جرائم کے خلاف بیداری پیدا کرنی ہوگی تاکہ کوئی بچہ تنہا نہ رہے اور کوئی خاندان اپنے چراغ کے بجھنے سے پہلے مدد کے دروازے کھول سکے۔
انصاف کی فراہمی میں تاخیر بھی اس زہر کو پھیلا رہی ہے۔ جب قاتل اور اسمگلر پکڑے جانے کے باوجود برسوں مقدمات میں الجھ کر سزا سے بچ نکلتے ہیں، تو ان کے حوصلے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ریاست فوری اور مثالی سزائیں یقینی بنائے تاکہ ایک واضح پیغام جائے کہ معصوم جانوں سے کھیلنے والوں کو چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی۔
میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ افسوس کہ سنسنی خیزی اور چند ہزار ویوز کی دوڑ نے سچائی اور ذمہ داری کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم محض خبر دینے کے بجائے اصلاح کا ذریعہ بنیں۔ انہیں چاہیے کہ جرائم کو چٹپٹی سرخی نہیں بلکہ معاشرتی خطرہ سمجھ کر رپورٹ کریں۔
ایک اجتماعی فریاد ہے۔ کاشان اور دنیور مچوکال کے بچے کی معصوم روحیں آج ہم سب سے سوال کر رہی ہیں: کیا ہماری زندگیاں واقعی اتنی بے قیمت ہیں؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کی حفاظت کا وعدہ فراموش کر دیا ہے؟ یہ سوال صرف حکومت سے نہیں بلکہ ہم سب سے ہے۔ اپنے گھروں میں مکالمے کو زندہ کریں گے، اپنے بچوں کو اعتماد کا حصار دیں گے، اور اپنے گلی محلوں میں ایسی فضاء قائم کریں گے جہاں ہر معصوم جان محفوظ ہو۔ والدین، اساتذہ، سماجی رہنما اور ہر باضمیر شہری اس جنگ کے سپاہی ہیں۔ اگر ہم آج بیدار نہ ہوئے تو آنے والا وقت ہمیں معاف نہیں کرے گا۔
اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم نے خاموشی توڑ دی تو یہ وادیاں دوبارہ امن کا گہوارہ بن سکتی ہیں۔ اگر ہم نے آنکھیں بند رکھیں تو یہ سرزمین بھی ان شہروں کی طرح خوف کی علامت بن جائے گی جن کے بارے میں کبھی ہم کہا کرتے تھے کہ وہاں زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے، اور یہ کالم ایک پکار۔ اب فیصلہ ہم سب کے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس اندھیرے کو بڑھنے دیں یا روشنی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
column in urdu, young generation and our collective cry or decline
