column in urdu, World Has Changed, But Has Humanity 0

زمانہ بدل گیا، انسان کہاں بدل پایا، یا ترقی کی سفر میں گم شدہ انسان ، یاسر دانیال صابری
زمانہ بدل گیا ہے۔ہم کہاں کھڑے ہیں ہم نے کیا کچھ نہیں بدلا ۔ہماری ترقی رہن سہن بودباش کلچر دیگر اقدار ہم نے فراموش کر دیا ہم نہیں جانتے حقیقت میں ہم نے خودی کی پہچان کو ختم کر دیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا انسان واقعی بدل پایا ہے؟
ہم نے کپڑے بدلے، زبان بدلی، رہنے سہنے کا انداز بدلا، لیکن دل کے زخم، روح کی خالی پن اور احساس کی کمی آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔ انسان اب بھی سکون کا طلبگار ہے، لیکن سکون کہیں دور بھاگ چکا ہے، شاید اُن کھیتوں کی مٹی میں دفن ہو چکا جہاں کبھی ہل چلانے سے پہلے دعا مانگی جاتی تھی۔کبھی انسان محنت سے پہلے بسم اللہ کہتا تھا، اب بٹن دبانے سے پہلے نیٹ ورک چیک کرتا ہے۔کبھی ہل چلانے والے ہاتھ دعاؤں کی خوشبو میں لپٹے ہوتے تھے، آج وہی ہاتھ موبائل پکڑ کر گانوں کی دھن میں محو ہو جاتے ہیں۔ اس زمانے میں کام عبادت تھا، اب کام ایک ضرورت ہے۔ اُس وقت لوگ دل سے جیتے تھے، اب دماغ سے حساب کرتے ہیں۔پرانے زمانے کے لوگ جب کھیتوں میں جاتے تو ان کے ساتھ صرف بیل نہیں، ان کا ایمان بھی جاتا تھا۔ بارش نہ ہونے پر سب گاؤں والے مل کر دعا کرتے، اور جب بارش ہوتی تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر شکریہ ادا کرتے۔ اب بارش ہو تو سڑکوں پر کیچڑ کی شکایت ہوتی ہے۔ اُس وقت رزق کم ہوتا تھا مگر برکت بہت ہوتی تھی، آج رزق زیادہ ہے مگر بے برکتی نے ہر دروازے پر قبضہ جما رکھا ہے۔اُس زمانے میں ایک بوڑھا درخت بھی محفل کا حصہ ہوتا، بزرگ گاؤں کے فیصلے مسجد کے صحن میں کرتے۔آج بزرگوں کے فیصلے اولڈ ایج ہومز کی دیواروں کے پیچھے دفن ہو چکے ہیں۔پہلے والدین کے ہاتھ چومے جاتے تھے، اب انگلیوں پر سکرول کرتے بچوں کے پاس ان ہاتھوں کے لیے وقت نہیں۔وہ وقت بھی کیا خوب تھا، جب بیٹیاں حجاب کو فخر سمجھتی تھیں، شرم کو زیور مانتی تھیں۔ آج فیشن کی دوڑ میں پردہ پسماندگی کہلانے لگا ہے۔ تب عورت ماں تھی، بہن تھی، عزت کی علامت تھی۔ اب عورت اشتہار کا حصہ بن گئی ہے۔ لباس کم ہوا، مگر دکھاوا بڑھ گیا۔انسان کا جسم تو آزاد ہو گیا، مگر روح غلام ہو گئی۔پہلے انسان ہنرمند تھا۔ مٹی کے برتنوں میں بھی وہ محبت پکاتاتھا۔ ہاتھ کی کمائی تھی، اس میں خوشبو تھی، اس میں رزق کا تقدس تھا۔اب سب کچھ خودکار ہو گیا ہے۔مشینیں تو بن گئیں مگر انسان خود ایک مشین بن گیا۔
پرانے گھروں میں دروازوں پر لکڑی کی دستک تھی، اب ڈیجیٹل بیل ہے مگر دروازہ کھولنے والا کوئی نہیں۔
رشتے موبائل کے “آن لائن” اسٹیٹس پر جیتے ہیں، مگر دل کے دروازے “آف لائن” ہیں۔مجھے یاد ہے، جب گاؤں کھلتارو میں کلچرل ڈے ہوتا تھا تو ہر گھر میں روشنی ہوتی، لوگ دسترخوان بچھاتے، گانے سنتے نہیں، گاتے تھے۔نہ کیمرہ تھا، نہ اسٹیٹس، مگر لمحے دلوں میں قید ہوتے۔اب ہر تقریب میں تصویریں تو سینکڑوں ہوتی ہیں، مگر ایک تصویر بھی یادگار نہیں۔
تب زندگی سادہ تھی، آج آسان ہے مگر بےرنگ۔پرانے زمانے کا انسان محنتی تھا۔ وہ خود اپنے اوزار بناتا تھا، اپنی زمین کا محافظ تھا۔آج کا انسان دوسروں کے بنائے ہوئے اوزار سے خود کو چلا رہا ہے۔ترقی نے سہولت تو دی، مگر احساس چھین لیا۔اب انسان کے پاس سب کچھ ہے، مگر کسی کا نہیں۔ایک وقت تھا جب لوگ خود کو بانٹ کر خوش ہوتے تھے، اب لوگ دوسروں کو مات دے کر خوش ہوتے ہیں۔پرانے زمانے میں الفاظ تختی پر لکھے جاتے، محبت کے ساتھ۔اب کمپیوٹر پر لکھے جاتے ہیں، بے حسی کے ساتھ۔پہلے خوش خطی فن تھی، اب صرف فونٹ ہے۔
پہلے نام دلوں پر لکھے جاتے تھے، اب صرف سوشل میڈیا پر۔
یہ فرق صرف تہذیب کا نہیں، روح کا ہے۔انسان اب بھی چاہتا ہے کہ اسے سکون ملے، مگر وہ سکون خریدنے کے لیے غلط سمتوں میں بھاگ رہا ہے۔نہ اب کوئی مزار کے سائے میں سجدہ سکون دیتا ہے، نہ کسی ماں کے ہاتھوں کی گرمی میں چین ہے۔یہی تو زمانے کا المیہ ہے
ترقی نے ہمیں آگے بڑھا دیا، مگر پیچھے چھوڑ دیا انسانیت کو۔
کیا وہ پرانا زمانہ واپس آ سکتا ہے؟
شاید نہیں۔مگر اس کے آثار آج بھی زندہ ہیں ۔کسی بوڑھی ماں کی دعا میں، کسی پرانے گاؤں کے چولہے کے دھوئیں میں، یا کسی بچی کے حجاب میں جو اب بھی شرم کو زینت سمجھتی ہے۔شاید ہم وقت کو واپس نہ لا سکیں، مگر اپنے دل میں پرانے وقت کا چراغ ضرور روشن رکھ سکتے ہیں۔پرانے لوگ غریب تھے مگر مطمئن تھے۔
آج ہم امیر ہیں مگر خالی۔
پہلے چہرے سادہ مگر دل بھرے ہوئے تھے، اب چہرے چمکدار ہیں مگر دل خالی۔اس وقت محبت ایک زبان تھی، آج محبت ایک ایپلیکیشن۔ہم ترقی کر گئے مگر دلوں کی زمین بنجر ہو گئی۔ہم نے آسمان چھو لیا مگر انسانیت کھو دی۔ہم نے گھروں کو جدید بنا لیا مگر گھر پن کھو گیا۔پہلے دیے جلتے تھے، اب بلب ہیں، مگر روشنی کہیں نہیں۔ذندگی کے اس سفر میں ہم نے سہولتیں بڑھا لیں، مگر سادگی گم کر دی۔پرانے زمانے کے وہ دن جب چائے کی ایک پیالی پر گھنٹوں باتیں ہوتیں، اب وہی چائے ایک تصویر بن کر انسٹاگرام پر پوسٹ ہو جاتی ہے۔تب دل جیتنا مقصد تھا، اب لائکس جیتنا کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ہمیں سوچنا ہوگا کیا یہ ترقی واقعی ترقی ہے؟کیا ہم نے سہولت کے بدلے احساس قربان کر دیا؟کیا ہم نے جدیدیت کے نام پر اپنی روح بیچ دی؟یہ سوال ہر دل سے پوچھا جانا چاہیے۔
پرانے زمانے کے لوگوں نے کم میں جینا سیکھا، ہم نے زیادہ میں مرنا۔
انہوں نے زمین سے محبت کی، ہم نے زمین بیچ دی۔انہوں نے محنت کو عبادت سمجھا، ہم نے عبادت کو فارغ وقت کا کام بنا دیا۔وہ ہر کام سے پہلے دعا مانگتے، ہم اب کام کے بعد افسوس کرتے ہیں۔انسان ہر دور میں آسائش کا متلاشی رہا، لیکن سکون صرف ان دلوں میں رہا جو قناعت اور شکر سے بھرے ہوئے تھے۔پرانا زمانہ واپس نہیں آئے گا، مگر اُس کی روح اب بھی ہمارے اندر زندہ کی جا سکتی ہے — اگر ہم چاہیں، اگر ہم سننا چاہیں، اگر ہم محسوس کرنا چاہیں۔ییہ دنیا بدل جائے گی، زمانہ اور ترقی کرتا جائے گا، لیکن اگر انسان خود کو نہ پہچانے تو وہ ترقی نہیں، تباہی ہے۔ہمیں مشینوں سے نہیں، انسانوں سے رشتہ جوڑنا ہو۔ہمیں سکون موبائل کی اسکرین سے نہیں، دعا کے الفاظ سے ملے گا۔ہمیں محبت چیٹ میں نہیں، چہرے کی مسکراہٹ میں ڈھونڈنی ہوگی۔زمانہ بدل گیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے خود کو نہیں بدل لیا؟رہن سہن بودوباش، کلچر، اقدار سب کچھ ہم نے فراموش کر دیا۔ ہم نے اپنی اصل کو، اپنی پہچان کو کھو دیا۔ ہم نہیں جانتے کہ حقیقت میں ہم نے خودی کی بنیاد کو مٹا دیا ہے۔ یہ ایک سنگین لمحۂ فکریہ ہے۔ ہماری زمین، ہماری تہذیب، ہماری پہچان سب کچھ بدل چکا ہے۔ ہم دوسروں کے کلچر میں اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ اپنی پہچان مٹتی جا رہی ہے۔ اور افسوس، یہی وہ چاہتے تھے اور وہ کامیاب ہو گئے۔
سوال یہ ہے کیا ہم نے کبھی کوشش کی کہ انہیں اپنی تہذیب میں لائیں؟کیا ہم نے اپنی ثقافت کی بقا کے لیے جدوجہد کی؟افسوس، انہوں نے اپنی ثقافت کو ترجیح دی، اور ہم نے اپنی ثقافت کو خود اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا۔
پرانے زمانے میں لوگ اپنی روایات پر فخر کرتے تھے۔ ان کے رہن سہن میں سادگی، ان کی گفتگو میں محبت، ان کے تعلقات میں خلوص ہوتا تھا۔ آج ہم صرف نام کے مسلمان یا مشرقی رہ گئے ہیں، باقی سب کچھ مغربی رنگ میں ڈھل چکا ہے۔زمانے بدلنے میں کوئی برائی نہیں، مگر انسان کا بدل جانا خطرہ ہے۔
پرانا وقت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اصل خوشی ٹیکنالوجی میں نہیں، تعلق میں ہے۔
اگر ہم نے دل کے تعلق کو زندہ رکھا، تو یہ جدید زمانہ بھی حسین ہو سکتا ہے۔
ورنہ ترقی کے اس شور میں انسانیت کی آخری صدا بھی دب جائے گی۔وسلام خوش رہے آباد رہے
تحریر یاسر دانیال صابری

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

column in urdu, World Has Changed, But Has Humanity

50% LikesVS
50% Dislikes

زمانہ بدل گیا، انسان کہاں بدل پایا، یا ترقی کی سفر میں گم شدہ انسان ، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں