column in urdu, the land of the Ahl al-Bayt, Gilgit-Baltistan 0

سرزمینِ اہلِ بیت گلگت بلتستان اور قومِ لوط جیسی برائیوں کا بڑھتا ہوا فتنہ، سید مظاہر حسین کاظمی
گلگت بلتستان، خصوصاً بلتستان، صدیوں سے اہلِ بیتِ رسول ﷺ کی محبت اور وفاداری کی پہچان ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جسے “سرزمینِ اہلِ بیتؑ” کہا جاتا ہے۔ یہاں کے باسی دینی وابستگی، سادگی اور مہمان نوازی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس، آج اسی مقدس خطے پر ایک ایسا داغ لگ رہا ہے جو نہ صرف اس کی دینی شناخت کو مٹانے والا ہے بلکہ پورے معاشرے کو عذاب کی طرف دھکیل رہا ہے۔
یہ وہی گناہ ہے جس کے باعث قومِ لوط ہلاک ہوئی — مردوں کا مردوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ غیر فطری تعلق۔ بدقسمتی سے بلتستان جیسے پاکیزہ خطے میں بھی یہ قبیح عمل تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔
آج بلتستان کے گلی کوچے اور تعلیمی ادارے اس المیے کی گواہی دے رہے ہیں کہ نوجوان نسل ایک خطرناک دلدل میں دھنس رہی ہے۔
لڑکے لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔
لڑکیوں کے ساتھ زبردستی اور بدکاری کی خبریں بار بار سامنے آ رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر بے حیائی اور فحاشی کے اڈے کھل چکے ہیں، جہاں نوجوان نسل اپنی عزت اور ایمان دونوں بیچ رہی ہے۔
یہ صرف چند واقعات نہیں، بلکہ پورے معاشرتی بگاڑ کا مظہر ہیں۔ یہ رویے نہ صرف دینِ اسلام بلکہ انسانی غیرت اور وقار کے لیے بھی زہرِ قاتل ہیں
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں قومِ لوط کے انجام کو بیان کیا:
اور لوط کو یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہانوں میں کسی نے نہیں کی؟ بے شک تم مردوں کے پاس جاتے ہو شہوت سے عورتوں کی بجائے، بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو (الأعراف: 80-81)
قومِ لوط نے جب یہ عمل عام کیا تو ان پر زمین الٹ دی گئی اور آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی۔ ان کی بستیوں کو ایسا نشان عبرت بنایا گیا کہ قیامت تک انسان اس سے سبق لیتا رہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا ہم اس تباہ کن تاریخ کو بھول بیٹھے ہیں؟
یہ وہی خطہ ہے جو اہلِ بیتؑ کی محبت اور اسلام کی عملی تصویر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ لیکن اگر یہاں قومِ لوط جیسی برائیاں پنپنے لگیں تو یہ ہماری شناخت پر بدنما داغ ہے۔
جنسی تشدد اور زیادتی صرف جسمانی ظلم نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی تباہی ہے۔ ایسے بچے جو اس ظلم کا شکار ہوتے ہیں، عمر بھر نفسیاتی دباؤ، خوف اور احساسِ کمتری میں جیتے ہیں۔
جب بے حیائی عام ہو جائے تو معاشرہ غیرت کھو دیتا ہے۔ رشتوں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے، گھر ٹوٹنے لگتے ہیں اور اخلاقی موت واقع ہو جاتی ہے۔
یہ سوال آج ہر ذی شعور کے ذہن میں گونج رہا ہے۔ اس فتنہ کو روکنا صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
والدین: اپنی اولاد کی تربیت کریں، ان کی دوستیوں، محفلوں اور موبائل کے استعمال پر نظر رکھیں۔
اساتذہ: نوجوان نسل کو دین، اخلاق اور پاکدامنی کی تعلیم دیں۔
علماء و مشائخ: منبروں اور مجالس سے اس مسئلے پر کھل کر بات کریں۔ یہ وقت ہے کہ منبر صرف عقائد ہی نہیں بلکہ معاشرتی اصلاح کا بھی ذریعہ بنے۔
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے: ایسے مجرموں کے لیے سخت ترین سزائیں نافذ کریں تاکہ دوسروں کے لیے عبرت بن سکیں۔
بدقسمتی سے مقامی میڈیا اور سماج اس موضوع پر خاموش ہے۔ شاید غیرت مٹ چکی ہے یا شاید ڈر کے مارے زبانیں گنگ ہیں۔ لیکن اگر ہم نے آج آواز نہ اٹھائی تو کل ہمارے گھروں کے بچے بھی اسی ظلم کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سرزمینِ بلتستان کو اللہ تعالیٰ نے حسن، ثقافت اور دین کی روشنی عطا کی ہے۔ یہ خطہ اہلِ بیتؑ کی نسبت سے مقدس ہے۔ لیکن اگر یہاں قومِ لوط جیسی برائیاں پنپتی رہیں تو یہ عذابِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اجتماعی طور پر یہ عہد کریں:
بے حیائی اور جنسی جرائم کے خلاف آواز بلند کریں۔
اپنی اولاد کو دینی و اخلاقی تربیت دیں۔
بروقت نکاح اور عفت و پاکدامنی کو عام کریں۔
مجرموں کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کریں۔
ورنہ ڈر ہے کہ کہیں بلتستان بھی قومِ لوط کی طرح اللہ کے غضب کا شکار نہ ہو جائے۔
یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ اگر آج ہم نے یہ برائی نہ روکی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
column in urdu, the land of the Ahl al-Bayt, Gilgit-Baltistan

50% LikesVS
50% Dislikes

سرزمینِ اہلِ بیت گلگت بلتستان اور قومِ لوط جیسی برائیوں کا بڑھتا ہوا فتنہ، سید مظاہر حسین کاظمی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں