column in urdu, Social Media’s New Frontline and the Fall of the Young Generation 0

سوشل میڈیا کا نیا محاذ اور بگڑتی ہوئی نسل ، یاسر دانیال صابری
سرزمین گلگت بلتستان ہمیشہ سے سادگی، وقار، شرم و حیا اور باہمی احترام کی علامت رہی ہے۔ مگر افسوس کہ اسی مادرِ وطن کے دامن میں آج سوشل میڈیا کے نام پر ایک عجیب و غریب بے سمتی جنم لے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چند لوگ اپنی وقتی شہرت اور لائیکس کی بھوک میں اس خطے کی پہچان کو مسخ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں میں فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر ایسے متعدد جعلی ناموں سے آئی ڈیز سامنے آئی ہیں جن کا مقصد کسی مثبت سرگرمی کو فروغ دینا نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی خواتین، نوجوانوں اور معاشرتی رویوں کو غیر حقیقی اور منفی انداز میں پیش کرنا ہے۔ فاطمہ ہنزہ، جی وی ریکارڈرز اور ان جیسے کئی دوسرے نام، محض سوشل میڈیا پر ہلچل مچانے کے لیے تنقیصی اور شرم ناک مواد اپ لوڈ کرتے ہیں، اور بیشتر لوگ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کی نجی خوشیوں کی ویڈیوز کس طرح بغیر اجازت عوامی سطح پر اچھالی جا رہی ہیں۔
گلگت بلتستان میں شادیوں میں خواتین کا موسیقی کے ساتھ تفریح کرنا کوئی نئی بات نہیں، یہ ہمیشہ سے گھریلو دائرے میں موجود رہا ہے۔ لیکن ان روایتی تقریبات کی ویڈیوز کو سرعام فیس بک پیجز پر ڈال کر یوں پیش کرنا کہ جیسے پورا علاقہ کسی “اوپن ڈانس کلچر” میں تبدیل ہو چکا ہو، ایک بددیانتی کے سوا کچھ نہیں۔ چند منٹ کی ویڈیو پوری بستیوں کی عزت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، لیکن بدقسمتی سے آج ایسے صفحات اسی کام کو اپنا ہنر سمجھ بیٹھے ہیں۔اسی طرح، کچھ نوجوان جنہیں شاید کسی بھی قسم کی سماجی جواب دہی کا احساس نہیں ٹک ٹاک کو زندگی کا واحد مقصد بنائے بیٹھے ہیں۔ شہرت کے پیچھے اس قدر اندھا دوڑ پڑے ہیں کہ وہ حیا، پردے، گھریلو احترام اور علاقے کی ثقافتی حساسیت کو بھول چکے ہیں۔ بعض لڑکیاں بغیر چادر، بغیر حجاب یا غیر مناسب لباس میں ویڈیوز بنا کر پوسٹ کرتی ہیں، اور سمجھتی ہیں کہ شاید یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ دنیا نے خود کو جدید خطوط پر استوار کر لیا ہے، مگر جدیدیت کا مطلب اپنی پہچان کھو دینا نہیں ہوتا۔افسوسناک بات یہ ہے کہ چند لڑکے اپنی بیویوں کو بھی ٹک ٹاک کے لیے سامنے لاتے ہیں، ان کی تصاویر، چلتی ویڈیوز اور نجی زندگی کے مناظر اپ لوڈ کرکے لائیکس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ بات صرف بے پردگی کی نہیں، اصل مسئلہ ذہنی معذوری کی اس سطح کا ہے جہاں انسان اپنے گھر کی عزت کو بھی ایک “کانٹینٹ” سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ترقی کے نام پر زوال کو گلے لگا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو کیوں رہا ہے؟
وجہ بڑی سیدھی ہے نگرانی کا فقدان، قانون کا غیر فعال ہونا، اور والدین کی غفلت۔
گھر کے بڑے اگر اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، اساتذہ اگر کردار سازی میں سنجیدہ ہوں، اور معاشرہ مجموعی طور پر بے راہ روی کو روکنے میں اپنا حصہ ڈالے تو یہ بگاڑ اپنی جڑیں نہیں جما سکتا۔ لیکن جب غلط کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے انہیں “وائرل” ہونے کی ترغیب ملے، تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج ہمارے سامنے ہے۔گلگت بلتستان کبھی بے حیا ثقافت کا مرکز نہیں رہا۔ یہاں کی خواتین پردہ کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں، یہاں کے نوجوان سادگی کو اپنی شان سمجھتے ہیں، اور یہاں کے بزرگ نسلوں کو عزت اور غیرت کا سبق دیتے آئے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا کے اس نئے دور میں کچھ عناصر پورے خطے کی اس اصل شناخت کو بدلنے کے درپے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں شاید یہ خیال بیٹھ گیا ہے کہ “بدنامی بھی شہرت ہے” مگر انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ نام نہاد شہرت چند دن کی ہوتی ہے، اور اس کا نقصان پوری برادری کو بھگتنا پڑتا ہے۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

ضرورت اس بات کی ہے کہ گلگت بلتستان کے نوجوان خود اپنے خطے کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوں۔ یہ کام حکومت صرف قانون بنا کر نہیں کر سکتی، نہ پولیس ایک ایک موبائل فون تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ کام معاشرہ ہی انجام دے سکتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ ایسی جعلی آئی ڈیز کی نشاندہی کریں، ان کے خلاف آن لائن رپورٹ کریں، اور لوگوں کو آگاہ کریں کہ ان کا مواد گمراہ کن ہے۔
اسی طرح، ایک ایسا رضاکارانہ سماجی فورم قائم کیا جا سکتا ہے جو صرف ایک مقصد کے تحت کام کرے:
گلگت بلتستان کی عزت، ثقافت، اور نسوانی وقار کی حفاظت۔اس فورم کے ذریعے نوجوانوں کو تربیت بھی دی جا سکتی ہے تاکہ وہ خود بھی سوشل میڈیا کو مثبت انداز میں استعمال کریں اور دوسروں کو بھی درست راستے کی طرف لائیں۔ ایسی سرگرمیاں نہ صرف بگاڑ کو روکتی ہیں بلکہ نوجوانوں میں ایک ذمہ داری اور اجتماعی شعور بھی پیدا کرتی ہیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ گلگت بلتستان ہمارا گھر ہے۔ گھر کی عزت کو گھر والے ہی بچاتے ہیں۔ کوئی اور آکر ہمارا تشخص محفوظ نہیں کر سکتا۔ اگر ہماری خواتین حجاب کو چھوڑ دیں گی اور نوجوان حدود پھلانگتے رہیں گے تو پھر بگاڑ بہت تیزی سے بڑھے گا، اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں گلگت بلتستان کا وہی چہرہ بس جائے گا جو آج کچھ گمراہ لوگ سوشل میڈیا پر بنا رہے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم خود اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ ہر ماں باپ اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ سوشل میڈیا تفریح کا ذریعہ ضرور ہے مگر عزت اور حیا سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ ہر بھائی اپنی بہن کو اعتماد دے کہ اسے سوشل میڈیا کے جھوٹے معیاروں پر نہیں، اپنی اصل ثقافت پر فخر کرنا چاہیے۔ اور ہر نوجوان یہ سمجھ لے کہ ترقی اور جدیدیت لباس سے نہیں، کردار سے جھلکتی ہے۔آج ہمیں مل کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم گلگت بلتستان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟
وہی علاقہ جو غیرت، حیا اور سادگی کی پہچان ہو؟
یا ایک ایسا خطہ جسے چند فحاش مواد پھیلانے والے لوگ اپنے مفاد کے لیے بدنام کرتے رہیں؟انتخاب ہمارے ہاتھ میں ہے۔
اگر ہم نے اس بگاڑ کو ابھی نہ روکا تو آنے والا وقت ایسے مسائل کو جنم دے گا جن کے حل پر پوری نسلیں خرچ ہو جائیں گی۔
لیکن اگر آج ہم کھڑے ہو جائیں، اپنے گھروں میں، اپنی سڑکوں پر، اپنے موبائل فون تک میں ایک واضح لائن کھینچ دیں کہ گلگت بلتستان کی عزت سب سے مقدم ہے تو کوئی طاقت اس خطے کی پہچان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے اس فتنہ انگیز سیلاب کے سامنے بند باندھیں۔ یہ ہمارا اخلاقی، ثقافتی اور دینی فریضہ ہے۔
گلگت بلتستان ہماری پہچان ہے۔ اسے دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بننے دینا۔

وسلام
column in urdu, Social Media’s New Frontline and the Fall of the Young Generation

شگر پرنسپل انٹر کالج شگر پروفیسر حسن شاد باعزت طور پر سبکدوش، تعلیم کے شعبے میں 27 سالہ خدمات پر زبردست خراجِ تحسین

بلتستان کی دو معصوم بیٹیوں، تابندہ بتول اور ثمرین، کی ہلاکت نے پورے خطے کو سوگوار کر دیا ہے. ایڈووکیٹ کلثوم ایلیا شگری

شگر یوتھ مومنٹ مراپی کی ڈی سی شگر سے غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کی اپیل ,یوتھ مومنٹ مراپی نے حالیہ دنوں میں ضلع شگر کے مختلف علاقوں میں بڑھتی ہوئی غیر قانونی تجاوزات پر شدید تشویش

50% LikesVS
50% Dislikes

سوشل میڈیا کا نیا محاذ اور بگڑتی ہوئی نسل ، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں