گونگی ماں خاموش عدالت اور یتیم بچیاں۔آمینہ یونس اسکردو بلتستان
امیر وقت کی آواز ہے قلم خاموش ہو جا
میری ضد ہے زمانے میں ستم خاموش ہو جا ۔
گزشتہ روز نظروں سے ایک کالم گزرا جو بلتستان کی جنت نظیر وادی کے ایک دل دہلا دینے والے سانحے پر مبنی تھا۔ وہ خطہ جہاں پرندے بھی انسانوں کی بھیڑ میں بغیر ڈر کے شامل ہوتے ہیں۔ جہاں دلوں میں انسانیت، رحم اور محبت کی نہریں بہتی ہیں – وہی خطہ آج درندگی، سفاکیت اور ظلم کی نذر ہو چکا ہے۔
ایک گونگی ماں کو آگ لگا دی گئی، ایک نابالغ بیٹا پراسرار طور پر مارا گیا۔ اور دو کمسن بچیاں بے سہارا و بے آسرا چھوڑ دی گئیں۔ کیا یہ بلتستان ہے؟ وہی بلتستان جو حسن، اخلاق اور اخلاص کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے؟ کیا وہاں بھی ایسے درندہ صفت انسان بستے ہیں؟
یہ واقعہ صرف کسی غریب خاندان کا سانحہ نہیں – یہ انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ یہ ظلم، اس پورے معاشرے، اس کی اقدار، اور اس کے ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اس سے نہ صرف اہل علاقہ کی بے حسی عیاں ہوتی ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہم طبقاتی تفریق، طاقت کے نشے، اور بے ضمیری کی دلدل میں کتنے گہرے دھنس چکے ہیں۔
آج تک ان یتیم اور معصوم بچیوں کی فریاد عدالت کی دیواروں سے ٹکرا کر ٹوٹتی ہے، بکھرتی ہے، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ انصاف کے ایوانوں میں اگر امیر کے لیے پلڑا جھکتا رہے اور غریب کا درد کچل دیا جائے تو ایسی عدالت انصاف نہیں، مذاق بن جاتی ہے۔
یہ مسئلہ صرف عدالتی ناانصافی کا نہیں، یہ ہمارے اجتماعی ضمیر کا سوال ہے۔ ہمارے معاشرے کی انفرادیت تو محبت، امن، بھائی چارے، اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے میں ہے۔ ظالم کا ساتھ دینا نہ صرف ظلم ہے، بلکہ اس پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔ یاد رکھیں، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ظلم کبھی بےجواب نہیں رہتا۔
عدلیہ، ریاستی ادارے، اہل علاقہ، اور ہر ذمے دار فرد پر فرض بنتا ہے کہ وہ ان معصوم بچیوں کے ساتھ انصاف کرے۔ یہ کوئی تماشا نہیں، ایک قرض ہے۔ اور اس قرض کا منصفانہ حل دینا ہم سب کی دینی، اخلاقی، اور انسانی ذمہ داری ہے۔ کہ حق کا ساتھ دیں۔
column in urdu, Silent Mothers, Quiet Courts, and Orphaned Girls