column in urdu, Silent Abuse in the Classroom 0

کلاس روم کی خاموش زیادتی، طالب علم شکیل حسین نمل یونیورسٹی، کراچی کیمپس

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار ہمیشہ تعلیم پر ہوتا ہے۔ علم وہ بنیاد ہے جس پر معاشرے تعمیر ہوتے ہیں، قومیں مضبوط ہوتی ہیں اور فکر و شعور کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر کسی ملک کو تباہ کرنا ہو تو اس کے خلاف ایٹم بم چلانے کی ضرورت نہیں—بس اس کے تعلیمی دروازے بند کر دیے جائیں؛ وہ قوم خود بخود کمزور ہو کر بکھر جائے گی۔ یہ حقیقت قوموں کے عروج و زوال کی پوری تاریخ بیان کرتی ہے۔

اسلام میں بھی علم کو غیر معمولی مقام حاصل ہے۔ علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے، چاہے اس کے لیے دنیا کے کسی بھی کونے تک سفر کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ حکم اس بات کی دلیل ہے کہ علم انسان کی فکری، اخلاقی اور معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے؛ اور اس علم کو انسان تک پہنچانے والی سب سے عظیم ہستی استاد ہے۔
استاد وہ شخصیت ہے جو ذہنوں کو روشن کرتی ہے، سوچوں کو سمت دیتی ہے اور کردار کو سنوارتی ہے۔ استاد کے بغیر تعلیم کا درخت بے جڑ ہو جاتا ہے، کیونکہ وہی وہ معمار ہے جو خام ذہنوں کو تراش کر ایک مضبوط، باادب اور باشعور نسل تیار کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ تعلیم قوم کی بنیاد ہے اور استاد اس بنیاد کا معمار۔
اگر استاد ایماندار، منصف اور مخلص ہو تو قومیں ترقی کرتی ہیں؛ اور اگر استاد جانبدار، کمزور یا غیر ذمہ دار ہو تو زوال قریب آ جاتا ہے۔
مگر افسوس کہ بعض اوقات یہی علم کا چراغ چند دلوں میں اندھیرا بھر دیتا ہے۔ وہ استاد جو پوری کلاس کے سامنے خود کو منصف، مہربان اور شفیق ظاہر کرتی ہے—جس کا رویہ سب کے ساتھ نرم اور تعریفوں سے بھرپور ہوتا ہے—وہی استاد کسی ایک طالبِ علم کے ساتھ حیران کن حد تک سخت، ناانصاف اور جانبدار ہو جاتی ہے۔
اس کی محنت کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اس کی کوششوں کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے، اور نمبر دیتے وقت انصاف سے مکمل غفلت برتی جاتی ہے—یوں جیسے دل میں پہلے سے کوئی فیصلہ لکھا ہوا ہو۔
اور پھر دوسروں کے سامنے یہ کہنا کہ “اس کا دوست کون ہے؟”… یہ جملہ ایک طالبِ علم کے دل پر زخم چھوڑ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس رویّے سے کیا جنم لیتا ہے؟
صرف ناانصافی، خوف، ذہنی دباؤ، بے یقینی، اور وہ خاموش سائے جو کسی طالبِ علم کی ہمت توڑ دیتے ہیں۔
غم کی بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔
اگر کوئی دوسرا طالبِ علم اس مظلوم طالبِ علم کا ساتھ دے، اس کی حوصلہ افزائی کرے یا انصاف کی بات کرے، تو استاد اسے بھی نشانہ بنا لیتی ہے—گویا اس کا اصول یہ ہو کہ جو انصاف کرے… سزا پائے۔
اور ظلم کی انتہا یہ کہ:
اگر وہ طالبِ علم نقل کر کے بھی جواب لکھ دے، تب بھی استاد اسے وہی کم نمبر دیتی ہے—یوں جیسے اس کی نظر میں اس طالبِ علم کا حق پہلے ہی سے طے ہو چکا ہو۔ ایسا رویّہ سکھانے والا نہیں، بلکہ دل زخمی کرنے والا ہوتا ہے۔
مگر یاد رہے:
حق دبایا تو جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔
انسان تھوڑی دیر ناانصافی کر سکتا ہے، مگر خدا کا انصاف کامل ہے—چاہے دیر سے ہی کیوں نہ ہو۔
ایک دن وہی طالبِ علم اپنی سچائی، کردار اور مسلسل محنت سے ثابت کرے گا کہ اصل پہچان نمبر نہیں، کردار اور قابلیت ہوتی ہے۔

column in urdu, Silent Abuse in the Classroom

کراچی ائیرپورٹ کے جناح ٹرمینل میں نیولے کا مٹر گشت، انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں

گیمبلنگ ایپ کی تشہیر، رجب بٹ اور ندیم نانی والا کی راہداری ضمانت منظور

100% LikesVS
0% Dislikes

کلاس روم کی خاموش زیادتی، شکیل حسین نمل یونیورسٹی، کراچی کیمپس

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں