تحریکِ بالاورستان: خودمختاری کی پکار منور شگری
گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خوبصورت خطہ ہے جو اپنی بلند و بالا برف پوش چوٹیوں، نیلگوں جھیلوں، سرسبز وادیوں اور مہمان نواز لوگوں کی وجہ سے ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔ مگر اس حسین وادی کے دل میں ایک خواہش ہمیشہ سے دھڑکتی آئی ہے حقِ نمائندگی، شناخت اور خودمختاری کی۔
یہی خواہش آگے چل کر تحریکِ بالاورستان کی بنیاد بنی۔ 1990 کی دہائی میں نواب مرزا محمد علی خان، جنہیں محبت سے نواب بالاورستانی کہا جاتا ہے، نے اس تحریک کا آغاز کیا۔ وہ ضلع غذر (پونیال) سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا مقصد طاقت حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنے لوگوں کے لیے انصاف، برابری اور آئینی حق کی جدوجہد تھا۔
تحریکِ بالاورستان کا بنیادی مقصد تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو مکمل حقوق دیے جائیں اور اس خطے کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ یہاں کے باسی اپنی تقدیر کے خود مالک بن سکیں۔ نواب بالاورستانی نے پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے علاقے کے مسائل کو اجاگر کیا اور اپنے خطے کے لیے عالمی سطح پر آواز بلند کی۔
گلگت بلتستان کے لوگ اپنی سادگی، خلوص اور بہادری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ یہاں کی زبانیں، ثقافت، روایات اور تہوار سب اس خطے کے حسین تنوع کو ظاہر کرتے ہیں۔ بالاورستان صرف ایک نام نہیں، یہ پہاڑوں کی غیرت، ثقافت کا فخر، اور خودمختاری کی علامت ہے۔
آج جب ہم اپنے خطے کے مستقبل کی بات کرتے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے خواب کو آگے بڑھائیں ایک ایسا خواب جس میں ترقی، انصاف اور خودارادیت شامل ہے۔ اگر حکومت اس علاقے کی تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر پر توجہ دے تو گلگت بلتستان صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک روشن مثال بن سکتا ہے۔
بالاورستان کی تحریک ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہے، تو پہاڑ بھی اس کے حوصلے کے آگے جھک جاتے ہیں۔
یہ سرزمین صرف خوبصورت نہیں خوددار بھی ہے۔
نوجوان کیا کچھ کر سکتا ہے!، فروا فدا اسوہ گرلز کالج سکردو
کزن دوست شمائل عبداللہ، گوجرانوالہ




