column in urdu, Reflections of a Nation’s Mind 0

افکارِ ملت، آمینہ یونس،سکردو بلتستان
اقوام کی شناخت صرف انفرادی ترقی سے نہیں ہوتی بلکہ اجتماعی فلاح، مضبوط معیشت، سیاسی بصیرت، علمی جستجو اور فکری نظریات سے ہوتی ہے۔ زندہ قومیں سرحدوں سے نہیں بلکہ اپنے خیالات، نظریات اور خودی سے پہچانی جاتی ہیں۔ جو قوم دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی پہچان خود دریافت کرے، وہی قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ معاشی، تعلیمی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی نظام کی اصلاح کے لیے خودی کا شعور ضروری ہے۔
کوئی بھی قوم اس وقت تک تعمیری کردار ادا نہیں کر سکتی جب تک اس کے پاس ٹھوس نظریاتی بنیادیں اور فکری تسلسل نہ ہو۔ ملتِ اسلامیہ کی اصل پہچان اس کے عقائد، سچائی، خلوص، نظریاتی وابستگی اور مسلسل فکری سفر سے ہوتی ہے۔ ایک ایسی قوم جو اپنے عقیدے، نظریے اور تاریخ کو لے کر آگے بڑھتی ہے وہی اپنی بقا کی ضامن بن جاتی ہے۔
جو معاشرے اپنی سوچ کو مثبت فکری دھارے پر استوار کرتے ہیں. وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات میں پختگی اور وسعت پیدا ہوتی ہے۔ تعلیم، ذرائع ابلاغ، سیاست اور مذہب سب کے سب انسانی افکار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی افکار قوم کی بنیاد بنتے ہیں۔ اگر یہ افکار خالص اور خودی پر مبنی ہوں تو قوم مستحکم ہوتی ہے ورنہ قوم پر زوال آتا ہے۔
موجودہ دور میں ہماری ملت فکری بحران کا شکار ہے۔ مغربی تہذیب کا اثر ہمارے گھروں، محلے، معاشرے، سیاست حتیٰ کہ ذہنوں تک سرایت کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی افکار کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ جس اسلامی فکر اور نظریے پر ایک ریاست کی بنیاد ہونی چاہیے تھی وہ اب دھندلا ہو چکا ہے۔ ہماری ملت کے افکار دوغلے ہو چکے ہیں۔ جس سے ملک، قوم اور فرد سب نقصان اٹھا رہے ہیں۔
جب کسی قوم کو اپنی اصل شناخت بوجھ لگنے لگے اور وہ دوسروں کے رنگ میں رنگنے لگے تو سمجھ لیجیے کہ وہ قوم اپنی بنیاد کھو چکی ہے۔ ایسی قوم اس درخت کی مانند ہو جاتی ہے جس کی شاخیں تو سبز نظر آتی ہیں مگر جڑیں اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہیں۔ جب وہ درخت گرتا ہے تو شاخوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ کب زمین بوس ہو گئے۔ جب ایک ملت فکری طور پر کمزور ہو جائے تو وہ خود سوچنے کے بجائے دوسروں سے سوچ مستعار لیتی ہے اور یہی اس کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی حال آج ہماری ملت کا ہے۔ ہمیں اپنی فکری بنیادوں کو دوبارہ مستحکم کرنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی اور قومی شعور کو بیدار کیا جائے۔ اپنی فکر، اپنی تہذیب، اور اپنے نظریے پر اعتماد بحال کیا جائے۔
ایک زندہ قوم بننے کے لیے فکری بیداری ضروری ہے۔ افکارِ ملت کو اس طرح زندہ رکھنا ہوگا کہ کوئی بیرونی سوچ یا دباؤ ہماری خودی کو متزلزل نہ کر سکے۔ جب تک ایک قوم کے نظریات زندہ اور متحرک ہوں وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہو سکتی۔ آج کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ ہم اپنی ملت کو فکری غلامی، ذہنی پسماندگی اور دوسروں پر انحصار جیسے مرض سے نکال کر نظریاتی خودمختاری کی راہ پر گامزن کریں۔
ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک واضح اور خالص فکری راستہ چھوڑنا ہوگا، تاکہ وہ اپنی پہچان کے ساتھ جئیں ایک زندہ، باوقار اور خوددار قوم بن کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوں۔
column in urdu, Reflections of a Nation’s Mind

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
50% LikesVS
50% Dislikes

افکارِ ملت، آمینہ یونس،سکردو بلتستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں