عوام کا اعتماد اور مستقبل کی امید وزیراعلی اور کابینہ کا کردار، یاسر دانیال صابری
پاکستان کی اساس محض ایک جغرافیائی حقیقت نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس کی بنیاد “لا الٰہ الا اللہ” کے کلمے پر رکھی گئی۔ اسی لیے جب کہا جاتا ہے کہ “پاکستان اسلام کا قلعہ ہے” تو یہ محض نعرہ نہیں بلکہ حقیقت کی آئینہ دار تعبیر ہے۔ قلعہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں دشمن کی یلغار کے خلاف دفاع کیا جاتا ہے، جہاں امید اور حفاظت کا پہرہ ہوتا ہے۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہنا دراصل یہ اعتراف ہے کہ یہ سرزمین صرف مسلمانوں کے سیاسی و سماجی حقوق کی ضمانت نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے ڈھال ہے۔
اسی تناظر میں ایک تقریب کے دوران ترجمان حکومت ایمان شاہ نے جو الفاظ کہے وہ قوم کے دل کی آواز ہیں:
“اسلام کی سربلندی پاکستان کی حفاظت ہے، پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور پاک فوج اس قلعہ کی محافظ ہے۔”
فوج اس ملک کے جغرافیے کی محافظ ہے لیکن ساتھ ہی وہ ہمارے نظریے کی نگہبان بھی ہے۔ یہی فوج ہمارے شہیدوں کی قربانیوں کی وارث ہے اور یہی فوج اس قوم کی امیدوں کا مرکز ہے۔
قومیں صرف جغرافیے سے نہیں بنتیں، ان کی بنیاد نظریات پر ہوتی ہے۔ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے اور اس کا تحفظ دراصل اسلام کے تحفظ کے مترادف ہے۔ یہی بات ایمان شاہ نے کہہ کر ایک بار پھر قوم کو اس کے اصل مقصد کی یاد دہانی کرائی۔
ایمان شاہ کی خدمات اور عملی کردار..
ترجمان حکومت ایمان شاہ کے یہ الفاظ محض تقریری نعرہ نہیں، بلکہ ان کے کردار کی جھلک ہیں۔ حالیہ برسوں میں جب گلگت بلتستان کو شدید سیلابی آفات کا سامنا کرنا پڑا، تب ایمان شاہ نے اپنے عہدے کو پروٹوکول کا ذریعہ بنانے کے بجائے عوامی خدمت کا وسیلہ بنایا۔ وہ دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں گئے، وہاں جہاں پانی کے ریلے گھروں کو بہا لے گئے تھے، کھیت کھنڈرات میں بدل گئے تھے اور لوگ بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے۔
ان کا جانا صرف دورے کی حد تک نہ تھا بلکہ وہ متاثرہ عوام کے ساتھ بیٹھے، ان کے مسائل سنے، اور انتظامیہ کو متحرک کیا کہ فوری اقدامات ہوں۔ کئی مقامات پر وہ اپنے ہاتھوں سے متاثرہ خاندانوں کے بچوں کو سامان تقسیم کرتے دکھائی دیے۔ یہ مناظر اس بات کی دلیل ہیں کہ ایمان شاہ کا جملہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ ایک یقین ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلام کا قلعہ مضبوط تبھی ہوگا جب عوام محفوظ ہوں گے اور ریاست اپنے شہریوں کی کفالت کرے گی۔
وزیراعلیٰ گلبر خان اور کابینہ کی خدمات.
سیلاب جیسی آفات میں سب سے بڑی آزمائش حکومت پر آتی ہے۔ وزیراعلیٰ گلبر خان نے اس موقع پر جو قیادت دکھائی، وہ ان کے وژن اور اخلاص کی عکاس ہے۔ وہ خود متاثرہ علاقوں میں پہنچے، عوام کے ساتھ بیٹھے اور ان کی شکایات سنیں۔ گلبر خان اور ان کی کابینہ نے یہ ثابت کیا کہ قیادت صرف ایوانوں میں بیٹھنے کا نام نہیں بلکہ عملی طور پر عوامی مشکلات کے درمیان جانے کا نام ہے۔
کابینہ کے اراکین نے اپنے اپنے محکموں کو متحرک کیا، پل ٹوٹنے کی صورت میں فوری عارضی راستے بنائے گئے، تعلیمی اداروں کو متاثرین کے لیے پناہ گاہ بنایا گیا، اور طبی سہولتیں گاؤں گاؤں پہنچائی گئیں۔ یہ اقدامات اس بات کی گواہی ہیں کہ گلگت بلتستان کی حکومت نے محض بیانات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی طور پر خدمت کی۔
فیض اللہ فراق کا اہم کردار.
کسی بھی حکومت کی کامیابی کا دار و مدار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ عوام کے مسائل اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ سکیں۔ اس ضمن میں ترجمان حکومت فیض اللہ فراق نے جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے پاکستان کے قومی میڈیا پر آ کر گلگت بلتستان کی صورتحال اجاگر کی۔ جب سیلابی ریلوں نے بستیاں اجاڑ دیں تو انہوں نے نیوز چینلز اور اخبارات کے ذریعے ان حقائق کو اسلام آباد اور وزیراعظم ہاؤس تک پہنچایا۔
یہی وجہ ہے کہ بروقت امداد ممکن ہوئی اور وفاقی سطح پر حکومت متوجہ ہوئی۔ فیض اللہ فراق کی یہ کاوش دراصل ایک پل تھی جس نے عوامی مسائل کو براہِ راست حکومتی ایوانوں تک منتقل کیا۔
ایف سی این اے اور چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ۔۔
اس کڑی میں فورس کمانڈ ناردرن ایریاز (FCNA) اور چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کا کردار بھی مثالی رہا۔ جب آفات نے در و دیوار ہلا دیے تو سب سے پہلے جوانوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ فوجی دستے رات کی تاریکی میں بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف رہے۔ یہ وہی جذبہ ہے جو ایمان شاہ کے جملے کی تصدیق کرتا ہے کہ پاک فوج واقعی اس قلعہ کی محافظ ہے۔
چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے انتظامی سطح پر ہر ادارے کو متحرک کیا۔ پانی، خوراک، بجلی، صحت اور تعلیم—ان تمام شعبوں میں انہوں نے مربوط حکمت عملی اختیار کی۔ ان کی نگرانی میں صوبائی محکمے ہم آہنگی سے کام کرتے رہے اور متاثرین کو بروقت سہولتیں فراہم کی گئیں
عوام کا اعتماد اور مستقبل کی امید
گلگت بلتستان کے عوام نے ان تمام خدمات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اسی لیے آج وہ وزیراعلیٰ گلبر خان اور ان کی کابینہ پر اعتماد رکھتے ہیں۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہی حکومت آئندہ برس بھی قائم رہی تو ترقی کے منصوبے بھی جاری رہیں گے اور مشکلات کے حل میں تسلسل بھی قائم رہے گا۔ یہی اعتماد ایک حکومت کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ جب عوام کو یقین ہو کہ ان کے مسائل سنے اور حل کیے جا رہے ہیں تو وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج گلبر خان کی حکومت کو عوامی سطح پر بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔
ایمان شاہ کا جملہ آج کے حالات میں ایک یاد دہانی ہے۔ اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی حفاظت لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی قلعہ ہے اور اس قلعہ کی حفاظت صرف فوج یا حکومت ہی نہیں بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ تاہم، یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ پاک فوج، صوبائی حکومت، ترجمانان، اور انتظامیہ نے حالیہ بحران میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ یہ حکومت محض دعووں پر نہیں بلکہ عمل پر یقین رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی زبان پر آج یہی جملہ ہے:
گلبر خان کی حکومت پر اعتبار ہے، یہ حکومت جاری رہنی چاہیے تاکہ اچھے کاموں کا سلسلہ رکے نہیں بلکہ آگے بڑھے۔
پاکستان کا مستقبل اسلام کی روشنی میں محفوظ ہے، اور یہ روشنی تبھی تابناک ہوگی جب ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریاں اسی طرح نبھاتے رہیں گے جس طرح حالیہ آفات کے دوران دکھائی گئی ہیں۔
اذ قلم یاسر دانیال صابری
column in urdu, public’s trust and hope for the future,