عوامی عدالت، پروفیسر قیصر عباس
عوامی عدالت، پروفیسر قیصر عباس
جنوبی ایشیا خصوصاً برصغیر پاک و ہند کے حوالے سے تو ہم نے ایسے واقعات عام دیکھے ہیں کہ سیاسی لیڈران جیل سے ایوان اقتدار اور ایوان اقتدار سے جیل پہنچ جاتے ہیں ۔ عموماً سزا پانے کے بعد ان کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ عدالت کا فیصلہ درست نہیں میں “عوامی عدالت” کی طرف رجوع کروں گا اور ہوتا بھی ایسا ہی ہے کہ لیڈران جیل میں بیٹھ کر پارلیمنٹ کے رکن بن جاتے ہیں۔اور ان کا “عوامی عدالت”میں جانے والا فیصلہ درست ثابت ہوتا ہے۔پاکستانی سیاست دان تو جیل کو اپنا “دوسرا گھر “بقول شیخ رشید احمد “سسرال”سمجھتے ہیں اور اسی طرح جیل میں خدمت کرواتے ہیں جس طرح سسرال میں داماد کی خدمت ہوتی ہے۔یہ تو پاکستان اور گرد ونواح کے حالات ہیں اب ترقی یافتہ ملک کا حال سنئے ۔امریکہ کی تین سو سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ وہاں سب سے طاقتور عہدے یعنی صدر امریکہ کا ایک بار بھی “مواخذہ” نہیں ہوسکا.علم سیاسیات کے طالب علم تو” مواخذہ”کی اصطلاح سے واقف ہیں مگر وہ لوگ جو اس اصطلاح سے نابلد ہیں ان کی معلومات میں اضافے کے لئے یہاں وضاحت کرنا ضروری ہے کہ دراصل مواخذہ ایک ایسا قانونی عمل ہے جس کے ذریعے صدر امریکہ یا پھر کسی بڑے عہدے دار کو اس کے منصب سے علیحدہ کیا جاتا ہے ۔امریکی تاریخ میں مواخذاہ کا یہ عمل صرف 19 افراد کے خلاف کامیاب ہوا ہے جن میں زیادہ تر تعداد امریکی وفاقی ججز کی ہے۔جب کہ امریکہ صدور میں سے آج تک کسی صدر کے خلاف بھی مواخذہ کا عمل پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکا اس کی دو وجوہات ہیں ایک یا تو متعلقہ صدر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا یا پھر مواخذہ کے عمل کے دوران مطلوبہ اراکین کانگریس “یاد رہے امریکہ میں قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ کو “کانگریس”کہا جاتا ہے ٫کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی ۔مواخذہ کے قانونی عمل کا سامنا امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ امریکی صدر جانسن کو کرنا پڑا مگر یہ عمل ایک ووٹ سے ناکام ہوگیا ۔اس کے بعد صدر نکسن کے خلاف” واٹر گیٹ سکینڈل “کی بنا پر جس میں صدر پر مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس کی کاروائی ٹیپ کرنے کا الزام تھا ۔کانگریس نے صدر کے خلاف مواخذہ کا فیصلہ کیا لیکن صدر نکسن نے مواخذہ کا سامنا کرنے کی بجائے استعفیٰ دے دیا ۔امریکہ کے صدر نے صرف کاروائی کو ٹیپ کیا اور استعفیٰ دے دیا جب کہ ہمارے ہاں ٹیپ تو بہت دور آئے روز ویڈیوز لیک ہوتی ہیں مگر مجال ہے کسی کے سر پر جو تک رینگی ہو یا کسی نے استعفیٰ دینے والی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور پھر ویوڈیوز بنانے والے ٫لیک کرنے والے اور جن کی ویڈیوز بنتی ہیں پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے اپنے منصب جلیلہ سے چمٹے رہتے ہیں۔اس کے بعد 1999ءمیں صدر بل کلنٹن کے خلاف “لیونسکی سیکس سکینڈل “کی بناء پر ایوان نمائندگان میں مواخذہ کی تحریک پیش ہوئی مگر اسے سینٹ میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہوسکی ۔لیونسکی نامی خاتون دراصل “وائٹ ہاوس” امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ میں ملازم تھی اور صدر کے پرسنل سٹاف میں شامل تھی ۔بل کلنٹن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اس خاتون سے جنسی مراسم قائم کئے مگر امریکی عوام کے سامنے جھوٹ بولا ۔اس کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دو دفعہ یہ مواخذہ کا عمل دہرایا گیامگر دونوں دفعہ یہ عمل ناکام ہوا ۔ایک تو الزام ان پر یہ تھا کہ انہوں نے جنوری کے مہینے میں اپنے حامیوں کو “کپیٹل ہل “پر چڑھائی کرنے اور تشدد پر اکسایا ۔مگر یہ مواخذہ بھی کامیاب نہ ہوسکا ۔اب امریکہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے کیونکہ امریکہ کی ایک عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو “ہش منی “کیس میں34 الزامات کے تحت فرد جرم عائد کر دی ہے ۔”ہش منی” کیس اصل میں ایک ایسا کیس ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک قریبی دوست مائیکل کوہن کے زریعے 2016ء کے صدراتی انتخابات سے پہلے پورن فلموں کی اداکارہ “اسٹورمی ڈئینیلز ” کو ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر ادا کرنے کو کہا تھا تاکہ “اسٹورمی ڈئینیلز” کو ان کے اس دعویٰ پر خاموش کیا جا سکے کہ ان کا ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک رات کا جنسی تعلق قائم ہوا تھا۔ٹرمپ پر 34 الزامات پر مبنی فرد جرم عائد کی گئی ہے کہ انہوں نے رقم کی ادائیگی کو چھپانے کے لئے اپنی کمپنی کے ریکارڈ میں ردوبدل کیا ہے۔اب اگر ٹرمپ جیل سے الیکشن لڑ کر صدر امریکہ منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ امریکی تاریخ کاایک انوکھا واقعہ ہوگا کیونکہ اس سے پہلے امریکہ میں کبھی بھی ایسی روایت نہیں رہی۔لگتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے سیاست دانوں سے بہت متاثر ہیں کیونکہ ان پرایک دیوانی مقدمہ میں فرد جرم عائد کی گئی ہے اور اس کے ردعمل کے طور پر ٹرمپ نے کہا ہے کہ” میں بہت معصوم ہوں٫ یہ ایک دھاندلی زدہ زلت آمیز مقدمہ تھا٫اصل فیصلہ عوام 5 نومبر کو کریں گے “یاد رہے امریکہ میں ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں صدارتی انتخاب ہوتا ہے ۔ٹرمپ کا اشارہ بھی اسی انتخاب کی طرف ہے دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کی طرح اس دفعہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی “عوامی عدالت” میں جانے کا فیصلہ کیا ہے
پروفیسر قیصر عباس!
column in urdu, Public Court