column in urdu, Present and Insistence on the Past 0

حال سے انکار اور ماضی پر اصرار، کرامت جعفری
یہ ایک تلخ مگر ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ہماری سیاست کا بڑا المیہ “حال سے انکار اور ماضی پر اصرار” ہے۔ آج چونکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی اٹھارویں برسی ہے، اس لیے سوچا کچھ ماضی اور حال کا جائزہ لوں اور جیالوں کے نام ایک پیغام دوں۔ موجودہ صورتحال میں اگر بھٹو کے نظریے کی کوئی زندہ صورت دکھائی دیتی ہے تو وہ عمران خان کی سیاست میں نظر آتی ہے، نہ کہ اُس جماعت میں جو آج بھی “بھٹو زندہ ہے” کا نعرہ لگا کر خود کو فریب دے رہی ہے۔ خود پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر موجود باوقار اور نظریاتی شخصیات، جیسے لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن، اس حقیقت کا عملی اعتراف کر چکے ہیں۔ وہ افراد جو دل سے بھٹو کے نظریے کے ساتھ وابستہ تھے، آج عمران خان کے مؤقف اور فکر کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ لطیف کھوسہ تو عملی طور پر تحریکِ انصاف میں شمولیت بھی اختیار کر چکے ہیں۔
اس کے برعکس، بریانی، ٹرانسفارمر، کلچر اور سرکاری نوکری کی سیاست کرنے والے عناصر آج بھی پرانے اور مُردہ نعروں کے سہارے عوام کو بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کل بھی “بھٹو زندہ ہے” کہتے تھے اور آج بھی وہی نعرہ دہرا رہے ہیں، مگر اگر واقعی بھٹو زندہ ہوتے تو کبھی اُن عناصر سے ہاتھ نہ ملاتے جنہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی نازیبا تصویریں ہوائی جہاز سے گرائیں۔ کوئی بھی باشعور اور با غیرت انسان ایسے لوگوں کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
مگر افسوس کہ زرداری گروپ نے اقتدار کی خاطر نہ صرف بھٹو اور بینظیر کے نظریات کو پسِ پشت ڈال دیا بلکہ روٹی، کپڑا اور مکان جیسے مقدس نعروں کو بھی محض ووٹ بٹورنے کا ذریعہ بنا لیا۔ کرسی کی محبت میں یہ لوگ سب کچھ بھلا کر اُن قوتوں کے ساتھ جا بیٹھے جن کے خلاف کبھی خود کو مزاحمت کی علامت قرار دیتے تھے۔ اگر ان کے پاس کوئی نظریہ یا اصولی سیاست ہوتی تو وہ غیر قانونی حرکات، اراکین کی خرید و فروخت اور عدم اعتماد جیسی سازشوں کا حصہ نہ بنتے۔
آج گلگت بلتستان میں حکومت سازی کے لیے اراکین کو پارٹی میں شامل کرنا، پرانے اور نظریاتی جیالوں کو دیوار سے لگانا، اور اندرونی اختلاف کو طاقت کے زور پر کچلنا، سب کچھ اسی اقتدار کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ یہ طرزِ عمل واضح طور پر بتاتا ہے کہ ان کے لیے عوام، اصول اور نظریہ سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، اصل مقصد صرف کرسی اور بینک بیلنس (مالی مفاد) ہے۔
لہٰذا عوام کو چاہیے کہ وہ ان منافقانہ رویوں کو پہچانیں، تاریخ سے سبق سیکھیں اور آئندہ انتخابات میں احتیاط کریں کیونکہ جن لوگوں نے اقتدار کے لیے نظریات کا سودا کر لیا ہو، وہ کل اپنی کرسی بچانے کے لیے گلگت بلتستان کے پہاڑوں، زمینوں اور وسائل
کا سودا کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

column in urdu, Present and Insistence on the Past

شگر کے سیاستدانوں کی کارکردگی ، ای ایس ڈی شگری

اسکردو مصطفیٰ علی حکیمی بلتی کھر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کے صدر منتخب، عباس علی جنرل سیکریٹری مقرر ، بلتی کھر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کے سالانہ انتخابات نہایت خوش اسلوبی، نظم و ضبط اور جمہوری انداز میں کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گئے

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت جمہوریت، آئین کی بالادستی اور عوامی حقوق کی جدوجہد کی ایک عظیم اور روشن مثال ہے، ر پاکستان پیپلز پارٹی ضلع شگر کے ترجمان وجاہت علی ایڈووکیٹ

50% LikesVS
50% Dislikes

حال سے انکار اور ماضی پر اصرار، کرامت جعفری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں