قلم کی طاقت، قوم کی بقا ۔لکھاری معاشرے کی آنکھ ہے، یاسر دانیال صابری
انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن کی ضرورت کیوں پڑی
لکھاری ہمیشہ سے قوم کا مرآہ رہا ہے۔ گلگت بلتستان کی زمیں، وہاں کے پہاڑ، وادیاں اور لوگ اپنے اندر ایک ایسی داستان رکھتے ہیں جس کا بیان صرف قلم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ قلمی بیانیہ تاریخ کو ریکارڈ کرتا ہے، شعور کو جگاتا ہے، اور انصاف کے دروازے کھولتا ہے۔ جب لکھاری خاموش رہتا ہے تو معاشرہ اندھا ہو جاتا ہے؛ جب لکھاری بولتا ہے تو آئینے میں وہ چہرہ ابھر آتا ہے جو ریاست، طاقتور طبقے یا منافع خور دائرہٴ اختیار کے پردوں کے پیچھے دب جاتا ہے۔ اس لیے لکھاری محض لفظوں کا مجموعہ نہیں، وہ سماج کی بینائی ہے، وہ ضمیر کی نبض ہے۔
گلگت بلتستان کی جدوجہد اور حقوق کا معاملہ اسی بینائی کا تقاضا کرتا ہے۔ تاریخی ناانصافی، سیاسی محرومی، معاشی نظراندازی اور یہاں کے لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوششیں محض اعداد و شمار یا پالیسیوں کی بات نہیں ۔ یہ انسانی زندگیوں، امیدوں اور مستقبل کی باہمی جنگ ہے۔ اس جنگ میں قلم کی وہ نوک ہی سب سے تیز ہونی چاہیے جو سچائی کی راہ دکھائے، جو مظلوم کی داستان سنائے، اور جو قوتیں ظلم و ناانصافی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کریں اُن کے پردے چیر دے۔ لکھاری جب مسلسل تحقیق کے ساتھ حقائق سامنے رکھتے ہیں تو وہ صرف خبر نہیں دیتے، وہ تبدیلی کا بیج بوتے ہیں۔ یہی بیج وقت آنے پر سرخ رو ترو تازہ درخت بن کر پھل دیتا ہے۔
اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جب ایک باقاعدہ، منظم اور بین الاقوامی سطح پر مربوط تنظیم ۔۔انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن ۔قائم ہوتی ہے تو یہ صرف ایک انجمن نہیں، یہ قلم کی ایک قافلہ ہے جو سچ کے دفاع کے لیے کھڑا ہے۔ اس قافلے میں شامل معروف تجزیہ نگار، صحافی اور تحقیق کار وہ پہچان ہیں جو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر گلگت بلتستان کے مسائل کو آواز دیتے ہیں۔ ان کا کام نہ صرف رپورٹس لکھنا اور کالمز شائع کرنا ہے بلکہ حقائق کو ایسے طریقوں سے سامنے لانا بھی ہے جس سے معاشرتی شعور بیدار ہو، انصاف کے تقاضے واضح ہوں، اور عوام کو اپنے حقوق دلوانے کی راہ میں ہچکچاہٹ ختم ہو۔ جب لکھاری اپنی قلمی طاقت سے عوامی رضامندی اور بین الاقوامی توجہ حاصل کرتے ہیں تو ظلم و استبداد کے جال کھل کر سامنے آتے ہیں۔
قلم کی یہ طاقت خطرناک قوتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔ جب حقائق شفاف انداز میں منظر عام پر آتے ہیں تو وہ طاقتیں جن کے مفادات اندھیرے میں پنہاں ہوتے ہیں، بے نقاب ہو کر کانپنے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لکھاریوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور کبھی کبھار ان کی حفاظت کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ایک معاشرہ جو اپنے لکھاریوں کی عزت اور حفاظت میں سنجیدہ نہیں وہ اپنی آنکھوں کی حفاظت نہیں کر رہا۔ گواہی اور تحقیق کی حفاظت کوئی وقتی فیشن نہیں، یہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔ انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن کا یہ عزم کہ وہ اپنے لکھاریوں کے حقوق اور حفاظت کے لیے کھڑی رہے گی، عملی معنوں میں اس حفاظت کی ضمانت فراہم کرتا ہے — نہ صرف کاغذ پر، بلکہ عوامی شعور اور ریاستی ذمہ داریوں کے دائرے میں۔
صحافت اور قلم کی آزادانہ مشق کا مطلب محض تنقید نہیں، بلکہ ذمہ دارانہ تحقیق بھی ہے۔ لکھاری وہ آلہ ہے جو معاشرتی گرد و غبار کو صاف کرتا ہے، وہ سوال اٹھاتا ہے، اور وہ پالیسی سازوں کو جوابدہ بناتا ہے۔ گلگت بلتستان کے حالات میں جہاں انفارمیشن کی رسائی اکثر محدود رہی ہے، وہاں آزاد لکھاری عوام کے لیے روشنی کا مینار بن سکتے ہیں۔ مگر یہ کام تنہا ممکن نہیں؛ جب ایک تنظیم لکھاریوں کو تربیت، قانونی معاونت، اور حفاظتی نیٹ ورکس فراہم کرتی ہے تو ان کی تحریری قوت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ انہیں اپنی تحریر میں خطرات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے، اور معاشرہ بھی جانتا ہے کہ کوئی ادارہ ان کے پیچھے ہے جو حق کی آواز کو برقرار رکھے گا۔
تحقیق پر مبنی صحافت کبھی الگ تھلگ نہیں ہوتی؛ وہ گروہی کاوش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب مختلف پس منظر کے لکھاری، دانشور اور مقامی رہنما ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف متنوع نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی آواز کو مؤثر انداز میں عالمی فورمز تک پہنچا سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی پیچیدگیوں کا درست اندازے کے ساتھ احاطہ اسی وقت ممکن ہے جب مقامی تجربے کو تحقیقی معیار کے ساتھ جوڑا جائے۔ انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن اسی ملاپ کی خواہش مند ہے — مقامی سچائی کو عالمی اسٹیج پر پیش کرنا، تاکہ مسئلے کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر بھی دباؤ پیدا ہو سکے۔
قلم صرف مسائل کی نشاندہی نہیں کرتا، وہ حل بھی تجویز کرتا ہے۔ لکھاری جب ذمہ دارانہ انداز میں پالیسی تجاویز، متبادل ماڈل اور بہترین عملی طریقے پیش کرتا ہے تو وہ فیصلہ سازوں کے لیے ایک قیمتی وسیلہ بن جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کی ترقیاتی ضروریات، ٹرانسپورٹ، تعلیم، صحت اور قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال کے معاملے میں مفصل اور عملی تجاویز کی اشد ضرورت ہے۔ ان تجاویز کو عوامی مکالمے میں شامل کرنے کے لیے مضبوط لکھاری جماعت اور تنظیمی مدد ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فعال، بین الاقوامی رائٹرز نیٹ ورک مقامی مسائل کو نہ صرف منظر عام پر لاتا ہے بلکہ انہیں حل کے ڈھانچے میں بھی تبدیل کر دیتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لکھاریوں کی حفاظت صرف انفرادی طور پر ضروری نہیں، یہ قومی سلامتی کا بھی معاملہ ہے۔ جب معاشرہ آزادانہ طور پر حقائق تک رسائی حاصل کرتا ہے، جب تنقیدی آوازیں محفوظ محسوس کرتی ہیں، تو سماجی ہم آہنگی اور انصاف کا مستقل درجہ قائم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب لکھاری خوفزدہ ہوں یا پابندیوں کا شکار ہوں تو معاشرہ جھوٹ اور افواہوں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ گلگت بلتستان جیسی حساس سرحدی اور تاریخی اہمیت رکھنے والی جگہ میں سچائی کی حفاظت ایک قومی فریضہ ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے لکھاریوں کو قانونی، معاشی اور جسمانی تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری صرف ایک رحم دل اقدام نہیں بلکہ ایک حکمت عملی ہے جس سے دیرپا استحکام ممکن ہوتا ۔۔۔انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن
کو محض ایک خاموش قانونی ادارہ نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ اسے ایک فعال عوامی تحریک کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ اس تنظیم کا مشن لکھاریوں کو بااختیار بنانا، ان کے حقوق کا تحفظ، اور معاشرتی مسائل کو تحقیق اور دلائل کے ذریعے عوامی ایجنڈے کا حصہ بنانا ہے۔ ہر شہری، ہر ادارہ اور خاص طور پر ہر سرکاری محکمۂ تعلیم و اطلاعات کو اس کوشش میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ قلم کی طاقت کو طاقتور ہتھیار سمجھ کر اس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ قلم زندہ رہے گا تو قوم زندہ رہے گی۔
قلم صرف کاغذ پر سیاہی کے نشان نہیں؛ وہ امید ہے، وہ تاریخ ہے، وہ احتجاج ہے، اور وہ تعمیرِ نو کا عہد بھی ہے۔ گلگت بلتستان کے لکھاری اور صحافی جب بغیر خوف کے اپنا کام کریں گے تو وہاں کے عوام کے بنیادی حقوق کا حصول محض ایک خواب نہیں رہے گا بلکہ حقیقت بن کر سامنے آئے گا۔ اس لیے حکومت، سماجی و فکری ادارے، اور بین الاقوامی برادری مل کر یہ یقینی بنائیں کہ لکھاری محفوظ رہیں، عزت سے رہیں، اور اپنی قلم سے سچ کی جسارت کرتے رہیں۔ قلم کا نوک ہتھیار سے بھی تیز ہے — اس کی تیز نوک سے جب حق کے ورق پلٹتے ہیں تو معاشرہ بہتر، منصف اور زندہ بنتا ہے۔
(یہ کالم لکھاریوں کی عزت اور حفاظت کے لیے — کیونکہ جب قلم زندہ ہوگا، تبھی قوم زندہ رہے گی۔)
چئیرمن یاسر دانیال صابری
column in urdu, power of the pen, the survival of the nation
