پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025، امریکہ کمپنی کے ساتھ معاہدہ. یاسر دانیال صابری
پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اس کی معاشی بقا اور مستقبل کے امکانات معدنیات کی شکل میں پہاڑوں کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025 اسی تناظر میں ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ فورم اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں دنیا بھر سے سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو مدعو کیا گیا۔ وہاں امریکی کمپنی US Strategic Metals کے ساتھ پانچ سو ملین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے گئے، اور ساتھ ہی ایک ملٹی میٹل ریفائنری کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ بظاہر یہ پاکستان کے لیے ایک روشن دن تھا، لیکن ہر روشنی اپنی پرچھائی بھی ساتھ لاتی ہے۔ اس روشنی کی پرچھائی گلگت بلتستان کی وادیوں پر پڑ رہی ہے جہاں کے عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان کے وسائل پر فیصلے ان کی مرضی کے بغیر کیے جا سکتے ہیں؟
گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جہاں زمین کے اندر سونے، تانبے، قیمتی جواہرات، اور ریئر ارتھ ایلیمنٹس کے بے شمار خزانے دفن ہیں۔ دنیا آج ان معدنیات کو مستقبل کی توانائی اور ٹیکنالوجی کی کنجی قرار دیتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان خزانوں پر پہلا حق ان پہاڑوں کے باسیوں کا نہیں ہونا چاہیے؟ جب عالمی کمپنیاں اور ادارے ان وسائل پر نظر جماتے ہیں تو انہیں صرف معدنیات نظر آتی ہیں، لیکن وہاں کے عوام کو اپنی شناخت، اپنی خودمختاری اور اپنے مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے۔ پاکستان کے آئین میں اس خطے کو مکمل صوبائی حقوق حاصل نہیں، اور نہ ہی یہاں کے عوام کو وہ اختیار دیا گیا ہے جو کسی بھی جمہوری خطے کے شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ ایسے میں جب کسی بین الاقوامی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کے اثرات براہِ راست گلگت بلتستان پر پڑتے ہیں تو یہ سوال لازمی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی رائے کے بغیر ان فیصلوں کی کوئی اخلاقی اور سیاسی حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وسائل کے معاملے میں مقامی آبادی کو اکثر نظرانداز کیا گیا۔ بلوچستان میں ریکوڈک کی کہانی سب کے سامنے ہے۔ وہاں بھی اربوں ڈالر کے منصوبے شروع ہوئے لیکن عوام کو ان کے وسائل کے ثمرات کم ہی ملے۔ یہی خوف گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں میں بھی جاگزیں ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی یہی نہ ہو۔ یہ خطہ پہلے ہی محرومیوں کا شکار ہے۔ نہ یہاں کے لوگوں کو مکمل سیاسی حقوق حاصل ہیں اور نہ ہی ان کے تعلیمی و معاشی حالات ملک کے دیگر حصوں کے برابر ہیں۔ ایسے میں اگر ان کے وسائل پر بیرونی سرمایہ کار قبضہ جماتے ہیں اور عوام کو محض تماشائی بنا دیا جاتا ہے تو یہ ایک نئی محرومی کا آغاز ہوگا۔
FWO (Frontier Works Organisation) کا اس معاہدے میں شامل ہونا ایک اور اہم پہلو ہے۔ FWO ایک دفاعی ادارہ ہے جس کا بنیادی کام تعمیرات اور انفراسٹرکچر ہے، لیکن اب اسے معدنیات کے شعبے میں بھی داخل کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو براہِ راست فوجی نظم و نسق کے ماتحت ہو، وہ عوامی رائے اور مقامی نمائندوں کے بغیر کیسے کسی خطے کے قدرتی وسائل پر فیصلے کر سکتا ہے؟ گلگت بلتستان کی عوام کے لیے یہ صرف معاشی نہیں بلکہ سیاسی اور تزویراتی مسئلہ بھی ہے۔ کیونکہ یہ خطہ نہ صرف معدنیات کا خزانہ ہے بلکہ جغرافیائی طور پر بھی چین، بھارت اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک اہم مقام رکھتا ہے۔
امریکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ بظاہر ترقی کی علامت ہے، لیکن اس کے پیچھے کئی خدشات پنہاں ہیں۔ امریکہ اس وقت دنیا بھر میں ریئر ارتھ ایلیمنٹس اور دیگر قیمتی معدنیات پر گرفت مضبوط کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے تاکہ چین کو اس میدان میں پیچھے دھکیلا جا سکے۔ گلگت بلتستان کا خطہ چونکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے، اس لیے یہاں کسی امریکی کمپنی کی شمولیت خود بخود ایک تزویراتی رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے پاکستان اپنی معدنی دولت کے دروازے کھول کر محض سرمایہ کاری نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت کی رسائی بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ کتنا دانشمندانہ ہے، اس پر ابھی سوالیہ نشان قائم ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کو اس سارے عمل میں شامل کیے بغیر کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہاں کے لوگ اپنے وسائل پر پہلا حق اپنا سمجھتے ہیں، اور وہ حق بجانب ہیں۔ آئینی اور قانونی طور پر بھی جب تک کسی خطے کو نمائندگی اور فیصلہ سازی کا اختیار نہ دیا جائے، اس کے وسائل پر کیے گئے معاہدے نہ پائیدار ہوتے ہیں اور نہ ہی عوام انہیں قبول کرتے ہیں۔ اگر ریاست پاکستان چاہتی ہے کہ یہ سرمایہ کاری واقعی کامیاب ہو تو سب سے پہلے گلگت بلتستان کے عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔جہاں کے مقامی اداروں، اسمبلی اور نمائندوں کی رائے کو فوقیت دینا ہوگی۔ عوامی مشاورت اور شفافیت کے بغیر اگر کوئی قدم اٹھایا گیا تو یہ ترقی نہیں بلکہ ایک نیا بحران پیدا کرے گا۔ عوام کو یقین دہانی کرانی ہوگی کہ ان کے وسائل پر سب سے پہلے ان کا حق ہے، اور ان وسائل سے ہونے والی آمدنی انہی کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوگی۔ اگر یہ وعدے پورے کیے گئے تو گلگت بلتستان واقعی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے، لیکن اگر عوامی رائے کو نظرانداز کیا گیا تو پھر یہ معاہدے صرف کاغذی کامیابیاں رہ جائیں گی۔
پاکستان کے حکمرانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا وہ اپنے عوام کو شراکت دار بنا کر ایک مضبوط اور پائیدار ترقی چاہتے ہیں یا انہیں صرف معدنی خزانے کا نگہبان سمجھ کر ایک اور محرومی کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ فیصلہ ریاست کے ہاتھ میں ہے، لیکن تاریخ یہ ثابت کر چکی ہے کہ عوامی رائے کو نظرانداز کرنے والے فیصلے کبھی دیرپا کامیابی حاصل نہیں کرتے ہیں
گلگت بلتستان کے پہاڑ محض چٹانیں نہیں بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی معدنیات ایک امانت ہیں۔ یہ امانت سب سے پہلے ان لوگوں کی ہے جو ان پہاڑوں کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر ریاست اور عالمی کمپنیاں واقعی ترقی چاہتی ہیں تو انہیں چاہیے کہ عوام کی رائے کو اس امانت کا محافظ مانیں۔ بصورتِ دیگر، سرمایہ کاری کے بڑے بڑے معاہدے محض سیاسی تماشہ بن جائیں گے، اور محرومیوں کی تاریخ میں ایک اور باب لکھا جائے گا۔
column in urdu, Pakistan Minerals Investment Forum 2025,
