column in urdu, national alliance has become inevitable 0

اب قومی الائنس ناگزیر ہو چکا ہے، یوسف علی ناشاد گلگت
کھیل تماشا اور کٹھ پتلیوں کو کون نہیں جانتا مداری لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کرتب دکھاتا ہے اور یہی اس کے روزگار کا ذریعہ بنتا ہے تماشائی تالیاں بجاتے ہیں اور مداری اپنی زندگی گزارتا ہے بالکل اسی طرح گلگت بلتستان کا سیاسی ڈھانچہ بھی چل رہا ہے یہاں کے نمائندے اپنے آقاؤں کے اشاروں پر چلنے والی کٹھ پتلیوں کے سوا کچھ نہیں جتنا حکم ملے اتنی ہی چال چل کر اپنی مدت پوری کرتے ہیں پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی شاخیں گلگت بلتستان میں قائم ہیں مگر یہ شاخیں محض نام کی ہیں ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایس سی او کا آفس اسلام آباد میں ہو اور صارفین گلگت بلتستان کے ہوں کوئی شخص ناقص نیٹ ورک کی شکایت لے کر اسلام آباد جا نہیں سکتا اور اگر فون کے ذریعے شکایت درج کرائے تو کبھی کال اٹھائی جاتی ہے کبھی نہیں اور اگر اٹھائی بھی جائے تو کوئی معقول جواب نہیں ملتا کیونکہ کنٹرول یہاں نہیں وہاں ہے یہی حال سیاسی جماعتوں کا ہے کسی کا کنٹرول لاڑکانہ میں ہے کسی کا رائیونڈ میں اور کسی کا بنی گالہ میں ان جماعتوں کے منشور اپنے صوبوں اور اپنے ملک کے حالات کے مطابق بنائے گئے ہیں ان کے منشور میں گلگت بلتستان کا کوئی قومی مسئلہ شامل نہیں ہوتا یہاں کے سیاستدانوں میں کبھی یہ جرات نہ ہوسکی کہ کسی جماعت میں شامل ہونے سے پہلے گلگت بلتستان کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا منشور تیار کریں اور پھر مرکز میں اپنے سربراہان کے سامنے رکھیں اگر بارہ نکاتی منشور میں سے صرف چار نکات پر بھی عملدرآمد ہوجاتا تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے تھے مگر یہ موقع بھی ضائع کیا گیا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے پانی کے ذخائر کے باوجود یہاں کے عوام بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں اور اتنے صاف شفاف پانی کو زہریلا اور آلودہ بنا کر عوام کو پلایا جارہا ہے مجال ہے کہ ان مسائل پر کبھی اسمبلی میں قرارداد بھی پیش کی گئی ہو کیونکہ یہاں کے نمائندے اپنے طور پر کچھ نہیں کرتے جو حکم ان کے آقا دیں گے وہی بجا لاتے ہیں مذہبی جماعتوں کا بھی یہی حال ہے اور ہماری اجتماعی نفسیات بھی مفاد پرستی کی آئینہ دار بن چکی ہے سیٹھ کا سہارا ملے تو ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں معیار اور اصول کہیں باقی نہیں رہے اس وجہ سے ہمیں ہماری نفسیات کے مطابق ہی چلایا جارہا ہے نہ اسمبلی میں آواز اٹھائی جاتی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل پر سنجیدہ توجہ دی جاتی ہے لوٹ مار کرپشن اور ناقص کارکردگی ہر ادارے میں بدرجہ اتم موجود ہے ایسے میں سوال یہ ہے کہ کون سا راستہ اختیار کیا جائے جس سے ان کٹھ پتلی حکمرانوں کو ہوش آئے اس وقت ابتدائی سطح پر یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ کیوں نہ ایک قومی الائنس تشکیل دیا جائے ایک ایسا اتحاد جس میں صرف وہ جماعتیں اور افراد شامل ہوں جو قومی شعور رکھتے ہوں جو اس کٹھ پتلی نظام سے تنگ آچکے ہوں اور جو اپنی دھرتی کے حقوق کے لیے سنجیدہ جدوجہد کرنا چاہتے ہوں اگر ایک مضبوط الائنس بنایا جائے اور پورے گلگت بلتستان کی سطح پر نمائندے میدان میں اتارے جائیں تو گھڑی باغ اور اتحاد چوک پر جلسے جلوس کرنے سے کہیں زیادہ بہتر نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ نظریاتی اور حق پرست لوگ اسمبلی سے باہر بھی اپنے نمائندوں کے پیچھے کھڑے ہوں گے تو مسائل کے حل کے امکانات کئی گنا بڑھ جائیں گے کب تک محض واویلا پر گزارہ کیا جائے اب وقت کا تقاضا ہے کہ ان معروسی کٹھ پتلی سیاستدانوں کے مقابل الیکشن میں کھڑا ہوا جائے ابتدا میں ممکن ہے کہ عوامی پذیرائی کم ہو مگر یہ عوام کو اپنے وسائل اور مسائل کے حوالے سے شعور دینے کا بہترین موقع ہوگا پہلی بار نہیں تو دوسری بار اور اگر دوسری بار نہیں تو تیسری بار میں کامیابی یقینی ہوگی کامیابی سے مراد یہ ہے کہ حق پرستوں کی ایک نمایاں تعداد اسمبلی میں پہنچے ایک دو نمائندے تو پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوسکتے ہیں اس مقصد کے لیے پورے گلگت بلتستان سے امیدواروں کے چناؤ پر غور کیا جارہا ہے اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے کہ عوامی ذہن سازی ہو لوگ سوچنے پر مجبور ہوں اور وہ افراد جو کسی پلیٹ فارم کی تلاش میں ہیں انہیں راستہ ملے قومی الائنس کے قیام کے لیے حمایت اور قوت اکٹھی ہو ہم سب گلگت بلتستان کے سپوت ہیں ہمیں سیاسی طور پر بیدار ہونا ہوگا ہمیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے منظم سیاسی جدوجہد کرنی ہوگی اور قومی الائنس کی صورت میں ایک نیا راستہ نکالنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں محرومی کے اندھیروں میں نہ جییں یہ وقت کی آواز ہے کہ اب قومی الائنس ناگزیر ہوچکا ہے

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
50% LikesVS
50% Dislikes

اب قومی الائنس ناگزیر ہو چکا ہے، یوسف علی ناشاد گلگت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں