ہم جنس پرستی، ویپ، سنوکر کلبز اور پر اسرار اموات – معاشرہ کہاں جا رہا ہے؟تحریر ثاقب عمر
قارئین کرام!
یہ تحریر محض چند جملے نہیں بلکہ ایک الارم ہے جو ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے لکھی جا رہی ہے۔ ہم سب اپنی آنکھوں کے سامنے نئی نسل کو بربادی کے راستوں پر جاتے دیکھ رہے ہیں مگر پھر بھی خاموش ہیں۔ یہ خاموشی دراصل مجرموں کو تحفظ دیتی ہے۔ ہم جنس پرستی، ویپ کا نشہ، سنوکر کلبز، گیمنگ زونز، ہاسٹلز، مہنگے موبائل فونز، کم عمر ڈرائیونگ، سگریٹ نوشی، منشیات نوشی اور پر اسرار اموات — یہ سب اس تباہی کی علامتیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قومِ لوطؑ کی تباہی کا تذکرہ بطور عبرت کیا ہے۔ یہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک زندہ سبق ہے کہ جب انسان اپنی فطرت اور دین سے منہ موڑتا ہے تو انجام ہمیشہ ہلاکت اور بربادی ہی ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ انہی راہوں پر چل رہا ہے مگر ہم نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
والدین اکثر بچوں کو مہنگے موبائل، جیب خرچ اور آزادی تو دے دیتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کس دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں۔ یہی غفلت انہیں انٹرنیٹ کیفے، ویپ اور غلط صحبتوں کے جال میں پھنسا دیتی ہے۔ اسی طرح کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل اور گاڑیاں دینا محض ایک شوق نہیں بلکہ قانون شکنی اور حادثات کی کھلی دعوت ہے۔ اساتذہ بھی اگر محض نصاب پڑھا کر فرض پورا سمجھ لیں اور طلبہ کے کردار و میلانات پر نظر نہ رکھیں تو یہ بھی مجرمانہ غفلت ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری دینا نہیں بلکہ نئی نسل کو صالح انسان بنانا ہے۔
سنوکر کلبز اور گیمنگ زونز کھیل اور تفریح کی آڑ میں اکثر بگاڑ کے اڈے بن چکے ہیں۔ ہاسٹلز میں نگرانی کی کمی بگاڑ کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ گھروں میں رکھے گئے نوکر یا میٹ بھی بعض اوقات بچوں کے استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ ویپ فیشن کے نام پر زہر ہے جو جسم و ذہن دونوں کو برباد کر رہا ہے۔ سگریٹ نوشی اور منشیات نوشی نے بھی نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چھوٹا سا کش وقتی نشہ تو دیتا ہے مگر پھر یہی نشہ زندگی کو اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ سگریٹ کی عادت اکثر ویپ اور بعد میں منشیات تک لے جاتی ہے، اور یہ وہ راستہ ہے جس سے واپس آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
قارئین کرام! یہ سب محض الفاظ نہیں ہیں بلکہ ہمارے علاقے میں کئی پر اسرار اموات ہو چکی ہیں۔ کچھ بچے بلیک میلنگ کا شکار ہو کر خودکشی پر مجبور ہوئے، کچھ کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا اور کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے جن کے راز آج تک پردوں میں چھپے ہیں۔ یہ لاشیں ہماری اجتماعی غفلت کا چیختا ہوا ثبوت ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ سنوکر کلبز، گیمنگ زونز، انٹرنیٹ کیفے اور ویپ جیسے زہریلے کاروبار کھلے عام چل رہے ہیں؟ کیوں کم عمر بچے موٹر سائیکل اور گاڑیاں آزادانہ چلا رہے ہیں؟ کیوں ہاسٹلز اور گھروں میں رکھے گئے نوکروں پر کوئی نگرانی نہیں؟ کیوں سگریٹ اور منشیات فروشی کے اڈے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں؟ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ سخت قوانین بنائیں، ان پر عمل درآمد کرائیں اور معاشرے کے مجرموں کو نشانِ عبرت بنائیں۔ بصورت دیگر یہ پر اسرار اموات اور جرائم بڑھتے رہیں گے اور ہم تماشائی بنے رہیں گے۔
حل اور تجاویز
قارئین کرام! اب صرف مسائل گنوانا کافی نہیں۔ آئیں کچھ عملی اقدامات کی طرف چلیں:
والدین کی ذمہ داری:
بچوں کو وقت دیں اور ان کی دوستیاں، موبائل کا استعمال اور سرگرمیاں جانچیں۔
مہنگے موبائل اور جیب خرچ دینے سے پہلے ان کے استعمال پر کڑی نگرانی کریں۔
کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل یا گاڑی ہرگز نہ دیں۔
اساتذہ کا کردار:
صرف نصاب نہیں بلکہ کردار سازی پر توجہ دیں۔
طلبہ کی صحبت، رویوں اور غیر نصابی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
قانونی اقدامات:
سنوکر کلبز، گیمنگ زونز اور انٹرنیٹ کیفے کے لیے سخت لائسنسنگ نظام بنایا جائے۔
ویپ اور سگریٹ کی فروخت پر خاص طور پر کم عمر بچوں کے لیے پابندی لگائی جائے۔
منشیات فروشوں کو سخت اور فوری سزائیں دی جائیں۔
ہاسٹلز اور گھریلو نگرانی:
ہاسٹلز میں اخلاقی نگرانی کے لیے کمیٹیاں بنائی جائیں۔
گھروں میں رکھے گئے نوکروں کے لیے پولیس رجسٹریشن لازمی ہو۔
معاشرتی بیداری:
مساجد، تعلیمی اداروں اور کمیونٹی سینٹرز میں آگاہی مہم چلائی جائے۔
میڈیا کو چاہیے کہ برائی کو عام کرنے کے بجائے اصلاحی کردار ادا کرے۔
قارئین کرام! اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یا تو ہم اپنی نسل کو بچانے کے لیے کھڑے ہو جائیں یا پھر کل کو یہی آگ ہمارے گھروں کو جلا ڈالے گی۔ یاد رکھیں، خاموشی گناہ ہے، بیداری وقت کی ضرورت ہے — اگر آج ہم نے نسل کو نہ بچایا تو کل کوئی نسل باقی نہ رہے گی۔
column in urdu, Mysterious Deaths gilgit baltistan