column in urdu, Modesty and faith 0

حیا اور ایمان، ام البنین شگری فرسٹ ایئر، گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول چھورکاہ، شگر
اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔ خالقِ کائنات اپنے بندوں کے لیے ستر ماؤں سے زیادہ شفیق اور مہربان ہے۔ اسی لیے اس نے ہمیں دوزخ سے نجات دلانے کے لیے انبیاء و رسول علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور عقل جیسی باطنی نعمت عطا کی تاکہ انسان خیر و شر میں تمیز کرسکے۔ انسان کو باحیا مخلوق بنایا گیا، اور اگر غور کیا جائے تو حیا کے کئی مراحل ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق سے حیا کرے، یعنی ایسی جگہ جانے یا ایسے عمل کرنے سے گریز کرے جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو اور جس سے انسان کی عزت و آبرو کو خطرہ لاحق ہو۔
قرآن کریم میں بے حیائی کی مذمت
قرآن مجید میں بے حیائی کے بارے میں کئی آیات موجود ہیں۔ چند بطورِ نمونہ درج ہیں:
“بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی کا چرچا ہو، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔” (سورۃ النور، آیت 19)
“یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔” (سورۃ العنکبوت، آیت 45)
“اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔” (سورۃ بنی اسرائیل، آیت 32)

احادیثِ مبارکہ میں حیا کی اہمیت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں، جب ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔”
“بے حیائی انسان کو عیب دار بنادیتی ہے، اور حیا جس میں بھی ہو اسے خوبصورت بنادیتی ہے۔”
جب کسی قوم میں بے حیائی عام ہوجاتی ہے تو اس پر سرکش افراد مسلط کر دیے جاتے ہیں اور وبائیں پھیل جاتی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “ان مردوں اور عورتوں پر لعنت ہے جو ایک دوسرے کی شباہت اختیار کرتے ہیں (یعنی لباس، وضع قطع اور انداز میں)۔”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو عورت باریک اور جسم دکھانے والے کپڑے پہن کر مردوں کو اپنی طرف مائل کرے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگی اور نہ ہی جنت کی خوشبو سونگھ سکے گی، حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے آتی ہے۔”
موجودہ دور اور معاشرتی رویے
قارئینِ محترم! اوپر بیان کردہ آیات اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں حیا کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے۔ حیا دراصل مسلم معاشرے کی پہچان ہے۔ کلمہ گو مرد و زن کے لیے لازم ہے کہ اس صفت کو اپنائیں، ورنہ ہم سچے مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں رہتے۔
آج کے دور میں انسان کی غرض و غایت زیادہ تر مادی وسائل اور دنیاوی ترقی پر مرکوز ہے۔ بدقسمتی سے روحانی، اخلاقی اور معنوی اعتبار سے ہم تیزی سے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کے دلکش نعروں جیسے “فیشن، آرٹ و کلچر، جدت پسندی، اعتدال پسندی، روشن خیالی اور آزادی نسواں” کے پردے میں معاشرے کو غیر محسوس طریقے سے عریانی و فحاشی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ جو لوگ شرعی اصولوں پر عمل کرتے ہیں، انہیں قدامت پسند، انتہا پسند یا دقیانوسی کہا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں یہی لوگ اصل مسلمان ہیں۔
اسلام نے ہمیں قرآن اور حضور اکرم ﷺ کی ذات کو نمونہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے خواتین کے لیے حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کو رول ماڈل قرار دیا۔ آپؑ کے نزدیک پردہ عورت کی زینت ہی نہیں بلکہ عفت و حیا کا ضامن بھی ہے۔ آج بھی پاکستان، ایران اور دیگر اسلامی ممالک میں باحجاب خواتین مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسلام نے عورت کو تعلیم و ترقی سے منع نہیں کیا بلکہ عفت و عزت کی حفاظت کی تلقین کی ہے۔
نسلِ نو کی تربیت کے لیے چند نکات
اگر ہم اپنی نئی نسل کو باحیا بنانا چاہتے ہیں تو درج ذیل امور پر عمل ضروری ہے:
1. تعلیمی اداروں سمیت دیگر مقامات پر شرعی پردے کے مطابق لباس اختیار کیا جائے۔
2. غیر ضروری مخلوط مجالس سے اجتناب کیا جائے اور اگر شرکت ناگزیر ہو تو مکمل حجاب کا اہتمام کیا جائے۔
3. نظر کی حفاظت کی جائے اور بدکلامی سے بچا جائے۔
4. موبائل، انٹرنیٹ اور میڈیا پر فحش و غیر مہذب مواد کی روک تھام کی جائے اور نئی نسل کو اس کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔
5. معروفات (نیک اعمال) کو عام کرنے اور منکرات (برائیوں) کو ختم کرنے کے لیے ہر فرد اور ادارہ اپنا کردار ادا کرے۔
6. بھارتی فلموں اور غیر اخلاقی پاکستانی ڈراموں پر پابندی عائد کی جائے تاکہ معاشرے کو فحاشی و عریانی سے بچایا جا سکے۔
دعا
اللہ تعالیٰ ہمیں حیا و عفت کے ساتھ زندگی بسر کرنے اور ایمان پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
راقمہ: ام البنین شگری
فرسٹ ایئر، گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول چھورکاہ، شگر

50% LikesVS
50% Dislikes

حیا اور ایمان، ام البنین شگری فرسٹ ایئر، گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول چھورکاہ، شگر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں