column in urdu, mirror of journalism 0

صحافت کا آئینہ ٹوٹ رہا ہے، ایس ایم مرموی
ایک سنگین مسئلہ جو گلگت بلتستان کی صحافتی دنیا کو گھیرے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ مقامی اخبارات نئے اور ابھرتے ہوئے لکھاریوں کو جگہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر آپ کوئی بھی مقامی اخبار اٹھا کر دیکھیں تو اس میں وہی پرانے اور مشہور کالم نگاروں جیسے جاوید چوہدری، حامد میر، سلیم صافی اور دیگر قومی سطح کے صحافیوں کے کالم چھائے نظر آئیں گے۔ نتیجتاً، نئے ٹیلنٹ کو اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ قسمت کے سہارے رہ جاتا ہے۔
اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ کچھ اخباروں کے ایڈیٹرز کی وفاقی حکومت سے وابستگی ہے، جو انہیں غلامانہ ذہنیت میں جکڑے رکھتی ہے۔ وہ وفاقی شخصیات یا اداروں پر تنقید کرنے والے کالم شائع کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے خود ایک ایڈیٹر نے فون کر کے مطلع کیا کہ آئندہ میرے کالم شائع نہیں کیے جائیں گے۔ یہ نہ صرف صحافت کی آزادی پر حملہ ہے بلکہ پورے علاقے میں غلامی کی زنجیروں کو مضبوط کر رہا ہے۔
اگر کوئی شخص یا ادارہ تنقید برداشت نہیں کر سکتا تو اسے صحافت جیسے پلیٹ فارم پر رہنے کا کیا حق ہے؟ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ گھر بیٹھیں اور طاقتوروں کے خوف سے بھاگنے کی بجائے بہادری کا مظاہرہ کریں۔ طاقتوروں سے ڈرنا بزدلی ہے اور صحافت کی روح کی توہین ہے۔ سچی صحافت کا مقصد تو سچ کو سامنے لانا، چھپی ہوئی برائیوں، کرپشن اور جرائم کو تحقیق اور ثبوتوں کے ساتھ پیش کرنا ہے نہ کہ ظالموں کی حمایت کرنا۔
اگر ہم میں سے کوئی بھی اس طرح کی غلامی یا خاموشی کا شکار ہوتا ہے تو وہ نہ صرف معاشرے بلکہ خدا کے سامنے بھی مجرم ٹھہرتا ہے۔ گلگت بلتستان کی صحافت کو آزاد اور منصفانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نئے آوازوں کو جگہ دی جائے، تنقید کو برداشت کیا جائے اور سچ کی آواز کو دبایا نہ جائے۔ یہ تبدیلی نہ صرف نئے ٹیلنٹ کو پروان چڑھائے گی بلکہ علاقے کی ترقی اور انصاف کے لیے بھی ناگزیر ۔
آج جب میں اپنے لوکل اخبار کھولتا ہوں تو وہی چہرے، وہی آوازیں، وہی کہکشاں جید قلمکاروں کے نام ہی سرِفہرست۔ کسی زمانے میں اخبار نیا لکھاری پالنے کا خزانہ تھا مگر آج وہ خزانہ تالہ پڑا ہے اور چابیاں چند ہاتھوں میں محدود ہیں۔ اس محدودیت نے نہ صرف مواقع چھینے ہیں بلکہ صحافت کی بنیادی روح اختلاف، تحقیق، اور عوامی احتساب کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں یہ نشیبِ وقت ہے کل سب ٹھیک ہو جائے گا مگر جب ایک ایڈیٹر براہِ راست فون کر کے کہے ہم آپ کے کالم شائع نہیں کریں گے تو یہ کوئی نجی طنز نہیں بلکہ ادارتی کمرۂ اقتدار کی ایک کھلی حقیقت ہے خوف، وابستگی، اور وفاداریِ مرکز۔ یہ وفاداری کبھی سیاسی ہوتی ہے کبھی معاشی مفادات کی برائے نام بات ہوتی ہے نتیجہ وہی ہوتا ہے شکنجے میں جمی صحافت۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

یہاں مسئلہ محض پرنٹ کے صفحات تک محدود نہیں۔ جو بیانیہ شائع ہوتا ہے وہ سماجی شعور کو تشکیل دیتا ہے۔ جب مختلف آوازیں دب جاتی ہیں تو معاشرہ ایک ہی رنگ کا ہو جاتا ہے سوال کرنا کم، قبولیت زیادہ۔ ایسے میں وہ لوگ جن کے پاس قلم ہے مگر وسائل یا رابطے نہیں، وہ خاموش رہنے پر مجبور ہیں یا پھر اپنے گھر کی چار دیواری میں محصور ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ بزدلی نہیں، زبردست تشددِ مواقع ہے جو اُنہیں خاموش کرا دیتا ہے۔

حل ناممکن نہیں سب سے پہلے شفافیت چاہیے اخبارات کو اپنے ایڈیٹوریل معیار عوام کے سامنے رکھنا چاہئیں۔ شفاف پبلشنگ پالیسی، شائع شدہ خطوط و کالمز کا ریکارڈ، اور نئے لکھاریوں کی انٹری کے لیے باقاعدہ کوٹے سے شروعات ممکن ہے۔ دوسرا، مقامی لکھاریوں کا باہمی اتحاد ایک قلمکارانہ یونین یا پلیٹ فارم جو نئے تحاریر، تحقیقی کالم، اور انویسٹیگیٹو رپورٹنگ کے لیے جگہ بنائے۔ تیسرا، ڈیجیٹل متبادل اگر پرنٹ دروازے بند ہیں تو آن لائن لازوال دروازہ بنائیں بلاگ، پوڈکاسٹ، ویڈیو کالم، اور سوشل میڈیا سیریز کے ذریعے مقامی موضوعات کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ذمہ داری صرف ایڈیٹرز کی نہیں بڑے نام بھی جب بار بار بیٹھ کر وہی کہانی دہراتے ہیں تو وہ معاشرتی گفتگو کی تنوع چھین لیتے ہیں۔ مثالی رویہ یہ ہوگا کہ تجربہ کار لکھاری نئے لکھاریوں کے لیے گائیڈ کریں ان کی رہنمائی کریں، مہمان کالم یا تربیتی سیریز کے ذریعے مواقع فراہم کریں یہ صحافت کی روح کی بحالی ہوگی۔

آخر میں ایک سخت مگر سچ بات صحافت کا تقاضا ہے کہ وہ خوف کے آگے جھکے نہ طاقت کے سامنے سر تسلیم نہ رکھے۔ اگر ہم نے آج سر جھکا دیا تو کل کے لیے ہماری آواز تاریخ کے صفحات میں ایک فسانہ بن کر رہ جائے گی۔ جو لوگ کالم شائع نہیں ہونے پر گھروں میں بیٹھ گئے ان کے لیے میرا ایک پیغام ہے ہمت کریں، اپنا پلیٹ فارم بنائیں، جمہوریت کے حق میں مظلوموں کے حق میں اپنی آواز بلند رکھیں۔
اور جو ایڈیٹر ابھی بھی اضلاع کے اصل مسائل کو دفن کر رہے ہیں، انہیں یاد دلائیں اخبار صرف خبر نہیں، یہ انصاف کا پببلک چیک بھی ہے اور چیک تبھی کارآمد جب وہ آزاد رہے۔
column in urdu, mirror of journalism

50% LikesVS
50% Dislikes

صحافت کا آئینہ ٹوٹ رہا ہے، ایس ایم مرموی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں