یومِ شہدائے جموں ۔ ایک یاد، ایک عہد، یاسر دانیال صابری
چھ نومبر 1947 کا دن برصغیر کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس نے انسانیت کو شرمندہ کر دیا۔ اس دن جموں میں ڈوگرہ مہاراجہ کی فوج اور ہندو انتہا پسندوں نے ظلم و بربریت کی وہ داستان رقم کی جسے سن کر روح کانپ جاتی ہے۔ لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو صرف اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ “لا الٰہ الا اللہ” کا نعرہ لگا رہے تھے، وہ پاکستان کے ساتھ جڑنا چاہتے تھے، وہ غلامی کے بجائے آزادی چاہتے تھے۔
یہ قتلِ عام کسی حادثے کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک منصوبہ بند نسل کشی تھی۔ دی ٹائمز آف لندن نے 10 اگست 1948 کو اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جموں میں دو لاکھ سینتیس ہزار مسلمان چند دنوں میں قتل کر دیے گئے۔ یہ وہ انسان تھے جن کا کوئی جرم نہ تھا۔ ان کے گناہ صرف اتنے تھے کہ وہ اسلام سے محبت کرتے تھے، اور اپنی پہچان پاکستان کے ساتھ جوڑنا چاہتے تھے۔
6 نومبر 1947 کو جموں کی زمین خون سے سرخ ہو گئی۔ گاؤں جل گئے، عورتوں کی عصمتیں پامال ہوئیں، بچوں کو نیزوں پر اٹھایا گیا، بوڑھوں کو گھروں سمیت جلا دیا گیا۔ یہ ظلم اس شدت کا تھا کہ دریا بھی خون کے رنگ میں بہنے لگے۔ ماؤں نے اپنے لخت جگر قربان کر دیے مگر ایمان کا دامن نہ چھوڑا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جموں کے مسلمانوں نے جان دی، مگر کلمۂ حق پر سمجھوتہ نہ کیا۔
آج جب ہم یومِ شہدائے جموں مناتے ہیں تو یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزادی آسانی سے نہیں ملی۔ پاکستان کے نقشے میں جو سبز رنگ ہے، وہ ان شہداء کے خون سے روشن ہے۔ یہی وہ قربانیاں ہیں جنہوں نے ہمیں غلامی سے نکالا اور ہمیں ایک آزاد وطن دیا۔
گلگت بلتستان کے عوام بھی اس دن کو نہایت عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ یہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ایمان کا حصہ ہے۔ گلگت، سکردو، دیامر، ہنزہ، نگر اور غذر میں ہر سال 6 نومبر کو ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جن میں بزرگ، نوجوان، خواتین اور بچے سب شامل ہوتے ہیں۔ ہر چہرے پر ایمان کی روشنی، ہر ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم، اور ہر زبان پر ایک ہی نعرہ گونجتا ہ
“کشمیر بنے گا پاکستان!”
یہ ریلیاں صرف رسم نہیں ہوتیں، یہ جذبے کی علامت ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ کشمیر کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں، کیونکہ ہم سب ایک جسم کی مانند ہیں۔ کشمیر میں خون بہے تو گلگت بلتستان کے دل تڑپتے ہیں۔ یہی رشتہ ہمیں جوڑے رکھتا ہے، یہی احساس ہمیں ایک قوم بناتا ہے۔
گلگت بلتستان کے لوگ ہمیشہ پاکستان اور پاک فوج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ چاہے سرحدوں پر دشمن حملہ کرے یا اندرونی سازشیں ہوں، یہاں کے نوجوان سب سے پہلے وطن کے دفاع کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں کشمیر کے لیے محبت بھی ہے، اور پاکستان کے لیے وفاداری بھی۔ یہی ایمان کا رشتہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب رکھتا ہے۔
6 نومبر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ قومیں صرف دعووں سے نہیں بنتیں بلکہ قربانیوں سے بنتی ہیں۔ شہداء جموں کی قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اگر ایمان مضبوط ہو، تو دنیا کی کوئی طاقت نظریے کو شکست نہیں دے سکتی۔ یہ دن صرف غم کا دن نہیں، بلکہ حوصلے، اتحاد اور عہدِ وفا کا دن ہے۔
آج کے دن ہمیں اپنے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ کیا ہم ان کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں؟ کیا ہم نے ان کے خوابوں کا پاکستان بنایا؟ کیا ہم نے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ دکھایا؟ اگر نہیں، تو ہمیں آج اپنے عہد کو تازہ کرنا ہوگا۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جموں کے شہداء نے اپنی جانی پاکستان کے نظریے کے لیے قربان کیں۔ وہ پاکستان چاہتے تھے، اور آج پاکستان کی بقاء اور استحکام ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ جانتے ہیں کہ وطن کی عزت، ایمان کی حفاظت سے جڑی ہے۔ اس لیے وہ ہر سال یہ دن مناتے ہیں تاکہ نئی نسل کو بتا سکیں کہ آزادی قربانی سے حاصل ہوتی ہے، دعا سے نہیں، جدوجہد سے۔
اقوامِ متحدہ اور دنیا کی بڑی طاقتوں نے جموں کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو آج تک فراموش کیا ہے۔ مگر تاریخ نے نہیں بھلایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ ظلم ہمیشہ مٹ جاتا ہے، مگر قربانی ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
آج جب دنیا سیاست، معیشت اور مفادات میں الجھی ہوئی ہے، کشمیر اب بھی انصاف کا منتظر ہے۔ ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے آواز بلند کرتے رہنا ہوگا۔ گلگت بلتستان کے لوگ ہر فورم پر کشمیر کے ساتھ کھڑے ہیں، اور یہ ان کا ایمان ہے کہ ایک دن کشمیر ضرور پاکستان کا حصہ بنے گا۔
آئیے، اس 6 نومبر پر ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم شہداء کے خون کو فراموش نہیں کریں گے۔ ہم اس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ بنیں گے۔ ہم کشمیر کے ساتھ تھے، ہیں، اور رہیں گے۔
سلام ہو شہدائے جموں پر!
سلام ہو پاک فوج کے جوانوں پر!
سلام ہو گلگت بلتستان کے عوام پر، جو ہر حال میں پاکستان کے ساتھ ہیں!
کشمیر بنے گا پاکستان!
پاکستان پائندہ باد، گلگت بلتستان زندہ باد!
column in urdu, Martyrs’ Day
انصاف کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے، نجف علی




