column in urdu, Know your worth, 0

اپنی قدر کو پہچانیے، ورنہ لوگ آپ کو ضائع کر دیں گے. یاسر دانیال صابری
یہ معاشرہ ہمیشہ ایک خوش اخلاق انسان کو آزمانے میں مصروف رہتا ہے۔ بظاہر وہ شخص سب کے لیے نرمی، محبت اور مسکراہٹ کا پیکر ہوتا ہے، لیکن لوگ اسے کمزور سمجھنے لگتے ہیں۔ معاشرہ اس کی خوش اخلاقی کو بزدلی، اس کی نرمی کو بے وقوفی اور اس کے صبر کو کمزوری کا دوسرا نام بنا دیتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہی دباؤ اور یہی نادانی انسان کو اندر سے کچل دیتی ہے اور وہی خوش اخلاق مزاج تلخی میں بدلنے لگتا ہے۔ یہ کوئی اچانک تبدیلی نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد اور تکلیف دہ تجربات کا نتیجہ ہوتا ہے۔
انسان کے اندر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اپنی قدر کو پہچان لیتا ہے۔ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس درجے کی عزت اور احترام کا حقدار ہے۔ یہی لمحہ اس کے فیصلوں کا رخ بدل دیتا ہے۔ پھر چاہے تعلق محبت کا ہو، ملازمت کا ہو یا دوستی کا، انسان فوراً سمجھ لیتا ہے کہ وہ کسی ایسے رشتے میں خود کو ضائع نہ کرے جو اسے وہ نہ دے سکے جس کا وہ حق دار ہے۔ اس کا ذہن اسے خبردار کرتا ہے کہ اصل غلامی یہی ہے کہ آدمی اپنی عزت نفس کو دوسروں کے ہاتھوں بیچ ڈالے۔
ہمارے معاشرے میں ایک خوفناک رویہ یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ ایسے شخص کی تلاش میں رہتے ہیں جو ڈرپوک ہو، کمزور ہو اور خوش اخلاقی کے نقاب میں خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ ایسے لوگوں پر معاشرہ اپنی تمام نفسیاتی الجھنیں، غصے اور ناکامیاں اتار دیتا ہے۔ گویا خوش اخلاق آدمی کو دوسروں کے لیے ایک کچرے کا ڈبہ بنا دیا جاتا ہے جہاں سب اپنی منفی توانائیاں پھینک کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کوئی کب تک یہ سب سہتا رہے؟ کب تک ایک نرم دل شخص دوسروں کے زخم سہلاتا رہے اور اپنے زخم چھپاتا رہے؟
محبت کے رشتے کی مثال لیجیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی محبت، توجہ اور قربانی سے دوسرے کا دامن بھرتا رہتا ہے، لیکن بدلے میں اسے وہ عزت نہیں ملتی جس کا وہ مستحق ہے۔ ایک دن جب وہ اپنی قدر پہچان لیتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ یک طرفہ قربانی دراصل خود کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ یہی لمحہ اسے تلخ بناتا ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب مزید اپنے دل کی قیمت پر کسی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔
ملازمت کے میدان میں بھی یہی کھیل جاری ہے۔ کتنے ہی قابل اور محنتی لوگ اپنے باس یا ادارے کی خوشنودی کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ وہ خوش اخلاقی اور وفاداری سے ڈٹے رہتے ہیں، لیکن آخرکار ان کی محنت کو نظرانداز کر کے کسی چاپلوس یا سفارشی کو نواز دیا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر انسان کا ضمیر چیخ اٹھتا ہے کہ یہ خوش اخلاقی نہیں بلکہ غلامی ہے۔ پھر وہی شخص اپنی قدر کو پہچان کر ایسی ملازمت کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔ معاشرہ اسے تلخ اور باغی کہتا ہے، مگر درحقیقت وہ اپنی عزت نفس کو بچاتا ہے۔
دوستی کے رشتے بھی اکثر اسی آزمائش سے گزرتے ہیں۔ ایک شخص دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کرتا رہتا ہے، ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیتا ہے، لیکن جب وہ خود کسی آزمائش میں ہوتا ہے تو سب غائب ہو جاتے ہیں۔ یہی لمحہ انسان کو بتاتا ہے کہ وہ اپنی خوش اخلاقی کو ضائع کر رہا ہے۔ اس کا دل کہتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی محنت اور محبت صرف انہی پر نچھاور کرے جو اس کے لائق ہیں۔
یہ سب تبدیلیاں انسان کو تلخ نہیں کرتیں بلکہ دراصل اس کی اصل قدر اور پہچان اجاگر کرتی ہیں۔ معاشرہ اسے تلخ سمجھتا ہے لیکن حقیقت میں وہی شخص اصل خوش اخلاقی کی راہ پر ہوتا ہے، کیونکہ اپنی عزت نفس کو مقدم رکھنا ہی سب سے بڑی خوش اخلاقی ہے۔ جو شخص خود کو پہچان لیتا ہے وہ دوسروں کے سامنے جھکتا نہیں، وہ اپنی نرمی کو دوسروں کا ہتھیار نہیں بننے دیتا بلکہ اسے اپنی ڈھال بنا لیتا ہے۔
یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ خوش اخلاقی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان دوسروں کو اپنے اوپر مسلط کر لے۔ اصل خوش اخلاقی وہی ہے جو وقار اور عزت نفس کے ساتھ ہو۔ اگر خوش اخلاقی کے نتیجے میں دوسروں کو یہ موقع ملے کہ وہ آپ کی خاموشی کو بزدلی سمجھیں، آپ کی نرمی کو کمزوری جانیں، تو پھر یہ خوش اخلاقی نہیں بلکہ خود کشی ہے۔
یاد رکھیے، انسان کو اپنی قدر خود پہچاننی ہوتی ہے۔ دنیا کبھی آپ کو وہ مقام نہیں دیتی جس کے آپ حقدار ہیں جب تک آپ خود اسے لینے کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ اگر آپ اپنی قدر کو نظرانداز کریں گے تو لوگ آپ کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔ وہ آپ کی مسکراہٹ کو مذاق سمجھیں گے، آپ کے صبر کو بزدلی اور آپ کے ہمدرد دل کو غلامی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی قدر پر سمجھوتہ نہ کریں۔
آخرکار یہ فیصلہ ہر فرد کو خود کرنا ہے کہ وہ خوش اخلاقی کو بوجھ بنائے یا طاقت۔ وہ اپنی نرمی کو دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے دے یا اسے اپنی ڈھال بنائے۔ معاشرہ چاہے کتنا بھی آزمائے، لیکن انسان کو اپنی عزت نفس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ جو اپنی قدر پہچان لیتا ہے وہی حقیقی طور پر آزاد ہے
column in urdu, Know your worth,

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنی قدر کو پہچانیے، ورنہ لوگ آپ کو ضائع کر دیں گے. یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں