جامعہ قراقرم علم کا گہوارہ یا انتشار کا میدان , یاسر دانیال صابری
گلگت جامعہ قراقرم یونیورسٹی میں حالیہ پیش آنے والے واقعات نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ ہمارے تعلیمی ادارے صرف علم کے مراکز نہیں بلکہ معاشرتی رویوں، اخلاقی تربیت اور سماجی شعور کے عکاس بھی ہیں۔ فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں دو طلبہ کے درمیان ایک معمولی اختلاف، جو ذاتی غلط فہمی اور چھوٹے جھگڑے پر مبنی تھا، لمحوں میں پورے کیمپس اور شہر کے لیے بحران میں بدل گیا۔ سڑکیں بند ہوئیں، دھمکیاں عام ہوئیں، والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہوئے، اور عوامی فضا کشیدہ ہو گئی۔
یہ واقعہ صرف دو طلبہ کی ذاتی کہانی نہیں بلکہ ایک نظامی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ، جو علم، کردار اور تربیت کا محافظ ہونی چاہیے تھی، ہمیشہ کی طرح اس اہم مسئلے پر خاموش رہی۔ فیسوں اور پروجیکٹس کے معاملے میں تو ادارہ توجہ دیتا ہے، مگر طلبہ کی حفاظت، نظم و ضبط، اور اخلاقی تربیت کے امور پر نظر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر انتظامیہ سنجیدہ ہوتی تو کیمپس میں نصب کیمروں کی ریکارڈنگ فوری سامنے لائی جاتی، قصوروار طلبہ کی نشاندہی کی جاتی، اور انہیں چند گھنٹوں میں سزا دی جاتی۔ لیکن بدقسمتی سے خاموشی اور غیر سنجیدگی نے ایک چھوٹے تنازعے کو پورے شہر کے لیے بحران میں بدل دیا۔
اصل معاملہ یہ تھا کہ لڑکیوں کے نمبر غلط ہاتھوں میں چلے گئے، جس کی وجہ سے گروہوں میں تصادم پیدا ہوا۔ “غلامانِ صحابہ و اہل بیت” کے کچھ نوجوانوں نے موبائل سے لڑکیوں کے نمبر ڈیلیٹ کر کے معاملے کو کم کرنے کی کوشش کی، مگر یہ اقدام انتشار پھیلانے والوں کے شور میں دب گیا۔ بعد میں دونوں گروہوں نے ہاتھ ملا کر صلح کی، بات ختم ہو گئی، مگر شہر بند کرنے والے اور عوام کو اذیت دینے والے عناصر اب بھی غیر جوابدہ ہیں۔
یہ دونوں گروہ وہی ہیں جن کے ذاتی جھگڑوں نے پورے گلگت کو دھویں میں مبتلا کر دیا۔ مذہب سے نابلد جنونی افراد نے اس قابلِ شرم واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی، ناکامی پر شانِ صحابہ، “زندہ باد” کے نعروں، یا “حیدری” اور “یا علی” کے نعرے بلند کیے، اور انتشار میں حصہ لیا۔ کچھ عناصر نے حسبِ عادت چوک اور چوراہے بند کر کے عوام کو اذیت پہنچائی، جبکہ حقیقی جھگڑے والے رقیب گلے مل کر فارغ ہو گئے۔ یہ لمحہ نہ صرف ایک اجتماعی فکریہ ہے بلکہ پوری قوم کے لیے اپنی جہالت پر ماتم کرنے اور احتیاط برتنے کا موقع بھی ہے۔ اکثر لوگ اپنے سیاہ کرتوت پر پردہ ڈالنے کے لیے مقدسات اور مذہبی نعرے استعمال کرتے ہیں، اور یہی ہماری سب سے بڑی المیہ ہے۔
یونیورسٹی میں یہ مسائل صرف ذاتی جھگڑوں تک محدود نہیں۔ امیر اور غریب طلبہ کے درمیان واضح فرق موجود ہے۔ رزلٹ اور حاضری اکثر فیس دینے والے طلبہ کے حق میں جاتی ہے، جبکہ محنتی مگر متوسط یا غریب طلبہ غیر شفافیت اور ناانصافی کا شکار رہتے ہیں۔ بعض طلبہ رشوت یا سفارش کے ذریعے سبجیکٹ پاس کر لیتے ہیں، جبکہ محنتی طلبہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں افیئرز، بے حیائی، اور ذاتی تعلقات بھی عام ہو چکے ہیں۔ واش رومز میں غیر اخلاقی اشیاء ملنے لگیں، منشیات دستیاب ہیں، اور طلبہ کے ذاتی تعلقات راز نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔ یہ ماحول نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کرتا ہے بلکہ طلبہ کی شخصیت اور وقار کے لیے بھی خطرناک ہے۔
مسائل کی سنگینی اس وقت مزید بڑھ گئی جب کچھ طلبہ اسلحہ اور گاڑی لے کر یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ انتظامیہ اور اساتذہ اکثر طاقتور یا امیر طلبہ سے ڈرتے ہیں، جس کی وجہ سے نظم و ضبط قائم نہیں ہو پاتا۔ طلبہ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ قانون کے بالاتر ہیں اور یونیورسٹی میں آزادانہ حرکت کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً تعلیمی معیار، اخلاقی رویے اور سماجی تربیت سب متاثر ہو رہے ہیں۔
والدین کی غفلت بھی اس بحران کو بڑھاتی ہے۔ والدین صرف فیس ادا کرتے ہیں، مگر بچوں کے اخلاقی تربیت اور یونیورسٹی میں ہونے والے بے حیائی اور ذاتی تعلقات پر نظر نہیں رکھتے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو نہ صرف تعلیم کے لیے بلکہ کردار اور وقار کے لیے بھی تربیت دیں۔ انہیں یہ سمجھایا جائے کہ تعلیم صرف نمبر لینے کا عمل نہیں، بلکہ شخصیت کی تعمیر اور معاشرتی اقدار کی حفاظت بھی ہے۔
مذہبی معاملات کا غلط استعمال بھی ایک المیہ بن چکا ہے۔ جو لوگ پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے، وہ یونیورسٹی میں فساد کر رہے ہوتے ہیں، اور چوکوں، بازاروں میں بیٹھے فارغ لوگ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس سے نفرت، تعصب اور انتشار میں اضافہ ہوتا ہے۔ گلگت میں یہ نفرتیں اتنی شدت اختیار کر چکی ہیں کہ ہر جمعہ اختلافات اور تعصب بڑھا دیتا ہے۔ تعلیمی ادارے، اسپتال، سرکاری دفاتر حتیٰ کہ جیلیں بھی مذہبی شناخت کے مطابق بانٹی گئی ہیں۔ ایسے ماحول میں یہ سوچنا کہ یونیورسٹی صاف اور غیر جانبدار تعلیمی ماحول فراہم کرے گی، محض خوش فہمی ہے۔
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کی کمی، اخلاقی تربیت کی عدم موجودگی، اور طاقتور طلبہ کی بے خوفی مجموعی بحران کا سبب بن چکی ہے۔
میرے خیال میں کچھ تجاویز یوں ہے
یونیورسٹی میں مسلح افراد کے داخلے، ان کے سہولت کاروں اور گاڑیوں کی آمد و رفت کے معاملے کی شفاف اور فوری تحقیقات کی جائیں۔شہر میں روڈ بلاک کرنے، عوام کے بنیادی حقوق سلب کرنے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے تمام افراد کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ انتظامیہ فوری اور واضح ضابطہ اخلاق مرتب کرے، جس میں بے حیائی، افیئرز، منشیات، اسلحہ لے کر داخل ہونا اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر فوری کارروائی شامل ہو۔
سیکیورٹی کے اقدامات میں اضافہ ہو، کیمپس کے داخلے، کلاس رومز اور حساس علاقوں میں گارڈز، کیمرے اور نگرانی ٹیمیں تعینات کی جائیں۔
والدین کو آگاہی فراہم کی جائے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے بچے کس ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
طلبہ کے درمیان اخلاقی اور شعوری تربیت کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کیے جائیں۔
مقدس نعروں، مذہبی جذبات اور تعلیمی ادارے کے تقدس کو ذاتی مفادات یا دشمنیوں کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
تعلیمی معیار کو امیر و غریب طلبہ کے درمیان مساوی بنایا جائے تاکہ کامیابی محنت اور قابلیت کے مطابق ہو۔
جامعہ قراقرم میں یہ واقعہ محض جھگڑا نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہماری کمیوں، نظام کی خامیوں، انتظامیہ کی ناکامی، اور معاشرتی رویوں کی حقیقت دکھاتا ہے۔ نظم و ضبط، اخلاقی تربیت اور شفافیت کی کمی نے یونیورسٹی کو انتشار، بے حیائی اور خوف کے مرکز میں بدل دیا ہے۔ اگر ہم آج اقدامات نہ کریں تو آنے والا وقت کہیں زیادہ خطرناک اور بحران سے بھرا ہوگا۔
وقت ہے کہ انتظامیہ، والدین، طلبہ اور معاشرہ مل کر جامعہ قراقرم کو علم، اخلاق اور وقار کا حقیقی مرکز بنائیں، تاکہ آنے والی نسلیں یہ کہہ سکیں کہ یہاں علم کا گہوارہ تھا، نہ کہ انتشار اور خوف کا میدان۔
وسلام
بھارت دوبارہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے والا تھا، ٹرمپ نے تصدیق کردی
>پچھلی جنگ صرف ٹریلر تھا، فلم ابھی باقی ہے، بدترین رسوائی کے بعد بھارتی آرمی چیف کی بڑھک
شگر نائب امام جمعہ و جماعت شیخ نثار مھدی اور ڈپٹی کمشنر شگر کی اہم ملاقات
column in urdu karakuram international university incident




