میرے بلتستان کیلیے ناسور، محمد بشیر حیدری
“Bride to be”
بغیر کسی تمہید و مبالغہ آرائی کے قارئین کی توجہ کو ایک اہم مسئلہ کی طرف مبزول کرنا چاہوں گا جو ہمارے دینی اور مذہبی ماحول کو ایک ایسے معیوب و غیر اخلاقی ماحول کی شکل دے رہا ہے جہاں مردوں کی غیرت اور عورتوں کی عفت و حیاء نام کی حد تک اور افسانوی باتوں تک محدود ہو۔
چند دنوں پہلے سنا کہ بلتستان میں ( چند جگہوں پہ)کسی بھی لڑکی کی شادی قریب ہوجاتی یے تو اس کی سہیلیوں کی جانب سے یا سہیلیوں کیلیے ایک پارٹی دی جاتی یے جس کا بنیادی مقصد تو لڑکی کو شادی کی مبارکباد دینا اور اس کی خوشیوں میں شامل ہونا ہے مگر اسکے بہت سے نقصانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ پروگرام شادی سے چند دن پہلے کیا جاتا ہے اور اس میں کالج اور یونیورسٹی کی سب سہیلیوں کو بلایا جاتا ہے اور سننے میں آیا ہے کہ لڑکے بھی آتے ہیں جو کالج اور یونیورسٹی میں انکے دوست ہوتے ہیں لڑکی کو باقاعدہ طور پر دلہن بنایا جاتا ہے سجایا جاتا ہے اور اسکےلیے سلیش بنایا جاتا ہے جس پہ Bride to be لکھا ہوتا ہے اور آدھی رات تک پروگرام ہوتا ہے اور اس میں گانے و لہو لعب الگ سے ۔کیا یہ ایک شرعی اور اخلاقی کام ہے کہ مرد و زن کی مخلوط محفل ہو جس میں رقص و گانے کی محفل ہو ؟ کیا یہ اسلام کا درس ہے؟ کیا یہ غیرت کا تقاضا ہے؟
اور مزید ایک مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے لیے گھر کا انتخاب بہت کم ہوتا یے بلکہ ہوٹل کے ہال بک کیے جاتے ہیں اور ان میں نام نہاد پیسے والے والدین بڑھا چڑھا کے پیسے خرچ کرتے ہیں کیونکہ یہ انکی مالی غیرت کا تقاضا ہوتا ہے اور ان کو اسکے پیچھے چھپے نقصانات کا اندازہ نہیں ہوتا ۔
اسی حوالے سے ایک مستند بندے سے ایک حال ہی میں گزرا واقعہ سنا کہ حسب عادت چند سہیلیوں نے اپنی سہیلی دلہن کو سجا کر 50000 روپے کے بک کردہ ہوٹل میں سجایا اور محفل شروع کی اور ناچ گانے شروع کر دیے اتفاق سے کچھ سیاح بھی اسی ہوٹل میں تھے انہوں نے ہال میں موجود لڑکیوں کو دیکھا اور اندر آگئے اور انکی ویڈیو بنائی اور وہ ویڈیو جو کہ دولہے تک پہنچ گئی اور اب اس کے سسرال کی طرف سے بہت زیادہ دباو ہوا کہ ہم اب شادی نہیں کرسکتے ہم عزت دار لوگ ہیں۔ تو اب اس لڑکی کے مستقبل کا کیا ہوگا؟
اسکے سارے خواب کچھ دیر کے شغل کے نذر ہوگئے ۔کیا یہ بات آپکی غیرت گوارا کرتی ہے کہ آپ کی اور میری بہن بیٹی کسی غیر مرد کے ساتھ اس طرح کی محفل کرے؟
اگر لڑکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ کرے اور شرعی حدود میں رہ کر اپنے گھر میں کرے تو کوئی مضائقہ نہیں مگر اس طرح سے ہوٹلوں میں نامحرموں کو اپنی آوازیں سناتے ہوئے اور مرد دوستوں کے ساتھ منانا نہ شریعت اسکی اجازت دیتی ہے نہ معاشرہ نہ غیرت اور نہ ہی اخلاقیات اسکی اجازت دیتی ہیں۔
تمام والدین و بزرگان سے گزارش ہے کہ اسطرح کی چیزوں کو سرے سے ختم کریں تاکہ معاشرہ میں فساد نہ پھیلےاور معاشرے کے زندہ افراد کا ثبوت دیں اور اگر آپکے معاشرے میں ایسا ہورہا ہو تو اس محلے یا معاشرے کے بزرگان اسکو روکیں ۔
تحریر:محمد بشیر حیدری.
column in urdu, Gilgit baltistan news