گلگت بلتستان کے لوگ بنیادی حقوق سے محروم کیوں ہیں ، ایس ایم مرموی
گلگت بلتستان، پاکستان کا وہ خوبصورت علاقہ جو پہاڑوں کی چوٹیوں، جھیلوں کی سکون اور ثقافتی تنوع کی علامت ہے۔آج بھی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ یہ علاقہ، جو 1947 میں پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا اب تک صوبائی درجہ حاصل نہیں کر سکا۔ اس کی عوام کو ووٹ کا حق تو ملا مگر مکمل سیاسی، معاشی اور انتظامی حقوق نہیں۔ حالیہ برسوں میں، خاص طور پر 2025 میں یہاں کی سڑکوں پر احتجاج کی لہر نے اس غفلت کو اجاگر کر دیا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ طاقتور حلقوں کی تقسیم کرو اور حکمرانی کرو” (Divide and Rule) والی پالیسی کو ختم کیا جائے، جو برطانوی نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے اور گلگت بلتستان کو مکمل حقوق دے کر اسے وطن کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
نوجوانو! یہ تمہاری زمین ہے، تمہاری آواز ہے اور تمہاری مستقبل کی جنگ ہے۔ گلگت بلتستان جو پہاڑوں کا تاج، دریاؤں کا موتی اور قدرتی وسائل کا خزانہ ہے ہمیشہ سے ایک ایسا خطہ رہا ہے جہاں خوبصورت مناظر کی آڑ میں سیاسی غلامی اور استحصال کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ خطہ پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود آئینی حقوق سے محروم ہے نہ وفاقی آئین کی پوری ضمانت نہ مکمل خودمختاری اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کی پوری تکمیل۔ سوائے چند مفادپرست سہولت کاروں کے، جو وفاق کے غلام بن کر اپنی ذاتی سہولیات اور مفادات کے بدلے عوام کی آواز کو دبواتے رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم ان تمام جھوٹوں منافقتوں اور سازشوں کو کھول کر رکھ دیں گے تاکہ تم جو مستقبل کی امید ہو ان طاقتوروں کی منافقت کو پہچان سکو اور اپنے لیے بہتر راستے تلاش کرو۔
گلگت بلتستان کی اہمیت کوئی خفیہ بات نہیں۔ یہ چین، افغانستان اور وسطی ایشیا کا گیٹ وے ہے جہاں سی پیک جیسے منصوبے گزرتے ہیں اور قدرتی وسائل کی دولت چھپی ہے جو اربوں ڈالرز کی مالک ہے۔ مگر افسوس! 1948 سے لے کر آج تک یہ خطہ آئینی حقوق سے محروم رہا ہے نہ مکمل صوبائی حیثیت، نہ ووٹ کا حق، اور نہ ہی وفاقی بجٹ میں منصفانہ حصہ۔ عوام کو صرف وعدے ملتے رہے۔جبکہ طاقتور طبقات وفاقی حکمرانوں سے لے کر مقامی نمائندوں تک نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔
یہاں کی پالیسی واضح ہے تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ فرقہ وارانہ لسانی اور علاقائی تقسیم کو ہوا دے کر طاقتور لوگ عوام کو ایک دوسرے کے خلاف لڑوا دیتے ہیں۔ نتیجہ؟ مستقل انتشار، ترقی کی راہ میں رکاوٹیں، اور غربت کا دور دورہ۔ بنیادی حقوق تعلیم، صحت، روزگار، صاف پانی سب اجاگر ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، سڑکوں کی خرابی اور صحت کے مراکز کی کمی یہ سب اسی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ مگر یہ طاقتور کامیاب ہیں، کیونکہ عوام تقسیم ہیں۔ نوجوانو! سوچو کیا یہ اتفاقیہ ہے کہ جب بھی حقوق کی بات اٹھتی ہے فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دی جاتی ہے؟ یہ منافقت ہے وہی جو تمہارے نمائندوں کی زبان پر ہے جو دن میں حقوق کی باتیں کرتے ہیں اور رات کو وفاق کے دفتر میں گھٹنے ٹیکتے ہیں۔
حال ہی میں، 5 اکتوبر 2025 کو، گلگت میں مولانا قاضی نثار احمد پر حملہ ہوا ایک ایسا واقعہ جو اس “لڑاؤ” کی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ قاضی نثار جو اہل سنت والجماعت کے امیر ہیں اپنے قافلے کے ساتھ گلگت پولیس آفس کے قریب گزر رہے تھے جب مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کی۔ معجزانہ طور پر وہ بچ گئے، مگر زخمی ہوئے۔ پولیس نے 8 افراد کو گرفتار کیا، جن میں سہولت کار بھی شامل ہیں، جو حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔ یہ حملہ فرقہ وارانہ دکھایا گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اتحاد کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش تھی۔ قاضی نثار جیسی شخصیات جو حقوق اور امن کی بات کرتی ہیں، طاقتوروں کی آنکھ کا طعنہ بن جاتی ہیں۔
یہ حملہ اتفاقیہ نہیں یہ اسی زنجیر کا حصہ ہے جو معدنیات پر قبضے کی کوششوں سے جڑی ہے۔ گلگت بلتستان میں لیتھیم، کاپر اور دیگر نایاب معدنیات کی بھاری ذخائر ہیں، جن کی مالیت 4-5 ٹریلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اس پر امریکہ سے معاہدے سائن کر لیے ہیں ستمبر 2025 میں FWO اور USSM کے درمیان MoU اور 500 ملین ڈالرز کی امریکی سرمایہ کاری کا یہ اسٹریٹجک ہینڈ شیک پاکستان کو امریکی مفادات کا غلام بنا رہا ہے، جبکہ مقامی عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ حملہ آوروں کا مقصد؟ اتحاد کو توڑنا، تاکہ معدنیات تک رسائی آسان ہو۔ قاضی نثار کے بچ جانے سے “گیم” کے ماسٹر مائنڈز کے خواب ادھورے رہ گئے مگر یہ وارننگ ہے مزاحمت کرنے والوں کو ختم کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔
اب انتخابات سر پر ہیں۔ گلگت بلتستان اسمبلی کا دورانیہ نومبر 2025 میں ختم ہو رہا ہے اور الیکشن کمیشن نے شفافیت کے لیے نئی تقرریوں، تبادلوں اور ترقیاتی سکیموں پر پابندی لگا دی ہے۔ مگر قیاس کیا جا رہا ہے کہ طاقتور اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے مرضی کے بندوں کو آگے لائیں گے ایسے لوگ جو معدنیات تک رسائی میں رکاوٹ نہ بنیں۔ یہاں امجد ایڈوکیٹ (پیپلز پارٹی کے صدر) اور حافظ حفیظ الرحمٰن (مسلم لیگ ن کے رہنما) جیسے “سہولت کار” سامنے آتے ہیں۔ وہ دن میں عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر سسٹ کرائس اور وفاقی مفادات میں “بریکر” کا کردار ادا کرتے ہیں۔ عوامی احتجاج میں انہیں وفاق کا غلام کہا جاتا ہے جو زمینی مسائل کو نظر انداز کر کے مرکزی حکمرانوں کی خوشامد میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی منافقت؟ حقوق کی باتیں کر کے وہی لوگ جو غیر ملکی کمپنیوں کو زمین دے دیتے ہیں۔ نوجوانو! انہیں ووٹ دے کر، تم خود کو غلام کیوں بناتے ہو ۔
پاکستان کے حکمران اس وقت خونخوار بھڑئے کی شکل اختیار کر چکے ہیں انہیں نہ انسانیت سے محبت ہے نہ عوام سے ہمدردی۔ معاشی بحران، دہشت گردی اور سیاسی انتشار میں وہ معدنیات کو بیچ کر بچ رہے ہیں مگر عوام کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ یہ منافقت ہے ایک طرف غریبوں کی فلاح کا نعرہ، دوسری طرف اربوں کی لوٹ مار۔
نوجوان نسل یہ تمہارا وقت ہے ان سہولت کاروں اور طاقتوروں کی منافقت کو سمجھو وہ تمہاری آواز نہیں تمہارے استحصال کے آلہ کار ہیں۔ اگر ان سے جان نہ چھڑائی تو سو سال مزید غلامی یقینی ہے۔ فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم کو مسترد کرو۔ قاضی نثار حملے کے بعد جو اتحاد بنا اسے برقرار رکھو۔ مشترکہ پلیٹ فارم بناؤ جہاں حقوق کی بات ہو نہ کہ ذاتی مفادات کی ایسے امیدواروں کو ووٹ دو جو مقامی ہیں عوام سے مخلص ہیں وفاق کے غلام نہیں۔ ڈیجیٹل مہم چلاؤ سوشل میڈیا پر منافقت کو بے نقاب کرو۔ الیکشن کمیشن کی پابندیوں کا فائدہ اٹھاؤ تاکہ پیسہ اور طاقت غالب نہ آئے۔
لیتھیم اور دیگر وسائل پر مقامی حکومت کا قبضہ ہو نہ کہ غیر ملکی کمپنیوں کا۔ تحریک چلاؤ کہ معاہدوں میں عوام کا حصہ 50% ہو اور ماحولیاتی تحفظ صوبائی حیثیت اور وفاقی آئین میں شمولیت کا مطالبہ کرو۔ پرامن احتجاج، قانونی مقدمات اور بین الاقوامی فورمز (جیسے اقوام متحدہ) کا استعمال کرو۔ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں سیاسی تعلیم کو فروغ دو۔ کتابیں پڑھو، دستاویزی فلمیں دیکھو اور اپنے حقوق لینا سیکھو۔ تمہاری نسل ٹیکنالوجی کی مالک ہے اسے تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرو۔
گلگت بلتستان کی خوبصورتی تمہاری ہے اس کی دولت تمہاری ہے۔ طاقتوروں کی منافقت کو پہچانو اور اپنی آواز کو سلاسل نہ بننے دو۔ اب وقت ہے بیداری کا، جدوجہد کا اور فتح کا۔ اگر تم نہ اٹھے تو کوئی نہ اٹھے گا۔ جاگو، متحد ہو۔اور اپنا مستقبل خود سنوارو!
گلگت بلتستان کے لوگ بنیادی حقوق سے محروم کیوں ہیں؟
گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جس نے آزادی اپنی قوت بازو سے حاصل کی مگر افسوس کہ آج تک اسے مکمل آئینی شناخت نہیں دی گئی۔ یہاں کے عوام نہ پاکستان کے شہری سمجھے جاتے ہیں، نہ آزاد ریاست کے۔ وفاقی حکومتیں صرف وسائل کے دوہنے اور مفاد پرست طبقوں کو نوازنے تک محدود رہی ہیں۔ عوام کے ووٹ، اسمبلی اور حکومت سب نمائشی ہیں، اصل اختیار اسلام آباد کے چند طاقتور اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ تعلیم، روزگار، صحت اور انصاف جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ یہ خطہ قربانیوں سے مالا مال ہے مگر ان قربانیوں کا صلہ آج تک نہیں دیا گیا صرف وعدے، دعوے اور محرومیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔
یوم آزادی بلتستان اور ہارس ٹروجن تھیوری، عارف بلتستانی
ہماری انوکھی آزادی، کرامت علی جعفری
آپ نے فزکس کیوں انتخاب کیا؟ ، فیاضی
column in urdu, Gilgit-Baltistan Deprived of Basic Rights




