column in urdu, Gilgit-Baltistan A Region Gained Without Force 0

گلگت بلتستان بغیر گملہ توڑے مفتوحہ علاقہ ، یاسر دانیال صابری
قسط اول
یہ بات کہے کہانی کہے صرف پہاڑوں کی نہیں،ریتلی مٹی کی نہیں بلکہ غیرت، ایمان اور بصیرت کی وہ داستان ہے جو تاریخ کے اوراق پر سیاہی سے نہیں، خون اور کردار سے لکھی گئی۔ دنیا کے بیشتر خطے بندوقوں کی گولیوں سے آزاد ہوئے، مگر گلگت بلتستان نے آزادی تلوار سے نہیں، شعور سے حاصل کی۔ یہاں کسی گملے کو نہیں توڑا گیا، کسی عمارت کو نہیں جلایا گیا، مگر ایک پوری سلطنت کی بنیادیں ہل گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ گلگت بلتستان آج بھی فخر سے کہتے ہیں کہ “ہم نے اپنا وطن بغیر گملہ توڑے فتح کیا”۔
یکم نومبر 1947 کی صبح کو جب ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کی چنگاری بھڑکی تو وہ کوئی اندھی طاقت کا ردِعمل نہیں تھا، بلکہ برسوں سے دلوں میں سلگتی ہوئی وہ آگ تھی جو غلامی کی زنجیروں کو پگھلا گئی۔ گلگت اسکاؤٹس کے بہادر سپاہی اور مقامی قیادت نے جس جرأت سے ڈوگرہ فوج کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا، وہ ایک غیر معمولی قدم تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے کوئی بیرونی امداد نہ تھی، نہ کوئی فوجی سازش، بلکہ یہ خالصتاً عوامی شعور اور خودداری کا مظہر تھی۔اسی آزادی کے بعد مقامی ریاستوں نے بھی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کیا۔ ریاست نگر کے میر شوکت علی خان نے 19 نومبر 1947 کو “دستاویز الحاق پاکستان” پر دستخط کیے، جسے انگریزی میں “Instrument of Accession” کہا جاتا ہے۔ اس میں صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ میں، میر شوکت علی، حکمران ریاست نگر، اپنی خودمختاری کے تحت یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرتا ہوں اور پاکستان کے ساتھ مکمل وفاداری کا وعدہ کرتا ہوں۔”
یہ الفاظ صرف ایک دستخط نہیں تھے، یہ تاریخ کی سمت بدلنے والا عہد تھا۔ الحاق کی یہ دستاویز اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ریاست نگر اور ہنزہ نے زبردستی یا جبر کے تحت نہیں، بلکہ اپنی آزاد مرضی اور شعور کے ساتھ پاکستان کے ساتھ وابستگی اختیار کی۔ یعنی یہ الحاق ایک “باوقار معاہدہ” تھا، نہ کہ “قبضے” کا نتیجہ۔
یہ نکتہ بہت اہم ہے، کیونکہ دنیا کے بہت سے علاقوں نے آزادی تو حاصل کی، مگر عزت نہیں بچا سکے۔ گلگت بلتستان نے آزادی بھی حاصل کی اور وقار بھی برقرار رکھا۔ کسی دشمن فوج کو شکست دے کر نہیں بلکہ اپنے ہی بگڑے نظام کو بدل کر، اپنی زمین، اپنے لوگوں، اور اپنے نظریے کو آزاد کر کے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے “مفتوحہ علاقہ” کہا جاتا ہے — مگر ایسا مفتوحہ جو بندوق سے نہیں، بصیرت سے حاصل کیا گیا۔
ریاست نگر کا الحاق نامہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں میر نے واضح کیا تھا کہ پاکستان کو صرف تین شعبوں ۔ خارجہ امور، دفاع، اور مواصلات — میں اختیار حاصل ہوگا، باقی تمام داخلی اختیارات ریاست کے پاس رہیں گے۔ یہ اس دور کے بین الاقوامی الحاقی معاہدوں کے عین مطابق تھا۔ یعنی پاکستان اور نگر کے درمیان رشتہ باہمی احترام، اعتماد اور خودمختاری پر مبنی تھا۔مگر 1972 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں جاگیرداری کے خاتمے کے نام پر اصلاحات نافذ کیں، تو ان اصلاحات نے گلگت بلتستان کے اس تاریخی توازن کو بھی بدل دیا۔ ریاست نگر اور ریاست ہنزہ کا روایتی نظامِ حکومت ختم کر دیا گیا۔ میروں کی سیاسی حیثیت چھن گئی اور براہِ راست وفاقی انتظام نافذ ہو گیا۔ بظاہر یہ ایک عوامی اصلاح تھی، مگر اس کے اثرات دور رس ثابت ہوئے۔
عوام کو وقتی خوشی ملی کہ جاگیرداری کا خاتمہ ہو رہا ہے، مگر درحقیقت ایک پوری ریاستی شناخت ختم کر دی گئی۔ وہ خودمختاری جو الحاقی معاہدے میں طے کی گئی تھی، وہ رفتہ رفتہ تحلیل ہو گئی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب سیاسی شعور نے نئے سوال اٹھانے شروع کیے کیا گلگت بلتستان واقعی پاکستان کا حصہ ہے؟
کیا ہمیں وہی حقوق ملے جو ایک پاکستانی شہری کے ہیں؟
کیا وہ الحاقی وعدے پورے کیے گئے جن پر 1947 میں دستخط ہوئے تھے؟ ان سوالات کا جواب آسان نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کے ساتھ دلی، تاریخی، اور نظریاتی طور پر جڑا ہوا ہے، مگر آئینی طور پر آج بھی غیر واضح حیثیت رکھتا ہے۔
یہاں کے عوام پاکستان کے سبز ہلالی پرچم سے عشق کرتے ہیں، پاکستان کی سرزمین کے دفاع کے لیے اپنی جانیں نچھاور کرتے ہیں، مگر ان کے پاس وہ آئینی شناخت نہیں جو کسی صوبے کے شہری کو حاصل ہے۔
یہ المیہ اسی تاریخ سے جڑا ہے۔ ہم نے آزادی حاصل کی، مگر آئینی تعریف کھو دی۔ ہم نے جیتا ہوا علاقہ پاکستان کے سپرد کیا، مگر بدلے میں ریاستی حقِ نمائندگی نہ ملا۔
یہ وہ پہلو ہے جو آج بھی گلگت بلتستان کی سیاست اور شناخت کے بیچ ایک دھندلا سا سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہے۔اگر اس ساری جدوجہد کو علامتی انداز میں سمجھا جائے تو “بغیر گملہ توڑے آزادی” کا مطلب یہی ہے کہ اہلِ گلگت بلتستان نے اپنی تہذیب، اپنے امن، اپنے تمدن کو قائم رکھتے ہوئے آزادی حاصل کی۔ یہاں نہ مساجد گریں، نہ بازار جلائے گئے، نہ کسی غیر مسلح شہری کو نشانہ بنایا گیا۔ اس آزادی میں نہ خون کی بو تھی، نہ انتقام کی آہٹ۔ یہ شعور کی بغاوت تھی، اس لیے آج بھی اس خطے کا ہر فرد اس پر فخر کرتا ہے۔
ریاست نگر کے میر شوکت علی خان، ریاست ہنزہ کے میر محمد جمال خان، اور گلگت کے ان بہادر سپاہیوں کو سلام جنہوں نے تاریخ بدل دی۔ انہوں نے اپنی زمین کی تقدیر اپنے قلم سے لکھی، نہ کہ دشمن کے حکم سے۔
اگرچہ 1972 کے بعد ان کی روایتی حیثیت ختم کر دی گئی، مگر ان کی قربانیوں اور بصیرت کی روشنی آج بھی ان پہاڑوں پر چمکتی ہے۔
گلگت بلتستان کے لوگ شاید دنیا کے واحد ایسے باشندے ہیں جنہوں نے بغیر ریاستی امداد، بغیر کسی عالمی طاقت کے تعاون کے، اپنی زمین آزاد کروائی اور پھر خود ہی ایک بڑے ملک کے ساتھ الحاق کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اس خطے کو محض “ضِلع” یا “ایریا” کہنا ناانصافی ہے۔ یہ خطہ ایک زندہ، تاریخی اور نظریاتی وحدت ہے جو پاکستان کی روح کا حصہ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ریاستی طور پر بھی اس تاریخی سچائی کو تسلیم کرے۔ یہ لوگ محض دفاعی مورچوں کے سپاہی نہیں، یہ نظریاتی بارڈر کے محافظ ہیں۔ ان کے جذبے نے ہی شمالی سرحدوں کو محفوظ رکھا ہے۔ ان کے بچوں نے برفیلے مورچوں پر پاکستان کے پرچم کو لہراتا رکھا ہے۔اگر 1947 کی وہ بغاوت نہ ہوتی، اگر میر شوکت علی الحاق پر دستخط نہ کرتے، اگر عوام پاکستان سے وابستگی کا اعلان نہ کرتے، تو آج گلگت بلتستان شاید کسی اور نقشے کا حصہ ہوتا۔
یہاں کے لوگوں نے تاریخ کے مشکل موڑ پر درست فیصلہ کیا، مگر بدقسمتی سے مرکز نے ان کی قربانیوں کو وہ قانونی عزت نہیں دی جو دینی چاہیے تھی۔اب وقت ہے کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں یہ آواز سنی جائے کہ گلگت بلتستان “غیر یقینی علاقہ” نہیں بلکہ ایک مفتوحہ اور وفادار علاقہ ہے، جس نے اپنی مرضی، اپنی قربانی، اور اپنی بصیرت سے پاکستان کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
یہ علاقہ قانونی دستاویزات سے نہیں بلکہ خون اور عہد سے پاکستان کے ساتھ جڑا ہے۔اگر پاکستان واقعی اپنے تاریخی وعدوں کو نبھانا چاہتا ہے تو اسے گلگت بلتستان کو محض جغرافیہ نہیں بلکہ ایک تاریخی امانت کے طور پر دیکھنا ہوگا۔
یہ علاقہ پاکستان کا دروازہ بھی ہے اور قلعہ بھی۔
یہی وہ خطہ ہے جہاں وفاداری کا بیج 1947 میں بویا گیا، اور جس کی جڑیں آج بھی ہر دل میں زندہ ہیں۔
گلگت بلتستان کی آزادی توپوں کے شور سے نہیں بلکہ ایمان کی للکار سے ہوئی۔ یہاں کسی گملے کو نہیں توڑا گیا، مگر غلامی کا بت ضرور ٹوٹا۔ یہ خطہ صرف برفیلے پہاڑوں کا نہیں، بلکہ شعور اور عزت کا استعارہ ہے۔
تاریخ کہتی ہے کہ مفتوحہ وہی ہوتا ہے جسے بندوق سے حاصل کیا جائے، مگر گلگت بلتستان نے ثابت کیا کہ کبھی کبھی علم، عزم اور ایمان بھی ایک لشکر ہوتا ہے۔
لہٰذا، ہاں گلگت بلتستان ایک مفتوحہ علاقہ ہے، مگر بغیر گملہ توڑے۔
جاری۔۔۔۔۔باقی کل

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

راولپنڈی بنتِ حوّا فاؤنڈیشن اور رختہ اکیڈمی کے مابین تعلیمی معاہدہ ، گلگت بلتستان کی طالبات کے لیے 45 فیصد رعایت کا اعلان، بنتِ حوّا فاؤنڈیشن اور رختہ اکیڈمی کے درمیان ایک اہم اور تاریخی تعلیمی معاہدہ طےپایا

سکردو بلتستان کا دل , حجاب فاطمہ اسوہ گرلز کالج سکردو

غلام حسین بلغاری ، طہٰ علی تابشٓ بلتستانی

50% LikesVS
50% Dislikes

گلگت بلتستان بغیر گملہ توڑے مفتوحہ علاقہ ، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں