گلگت بلتستان پر ایک نظر ، شازیہ حسنین اسوہ گرلز کالج، سکردو
گلگت بلتستان، پاکستان کے شمال میں واقع ایک حسین اور جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہم علاقہ ہے۔ قدرتی خوبصورتی، تاریخی ورثے اور ثقافتی تنوع سے بھرپور یہ خطہ ملک کا ایک قابلِ فخر حصہ ہے۔ گلگت بلتستان کی تاریخ جدوجہد، قربانی اور قومی جذبے سے عبارت ہے۔
یکم نومبر 1947ء کو گلگت بلتستان کے بہادر عوام نے اُس وقت کے ڈوگرہ راج کے خلاف ایک کامیاب تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں اس علاقے کو آزادی ملی۔ اس وقت یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا، تاہم مقامی رہنماؤں اور اسکاؤٹس نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کا رخ بدلا اور پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔ یہ الحاق عوامی خواہشات کے تحت، خود فیصلے کے ذریعے، بغیر کسی بیرونی فوجی مداخلت کے عمل میں آیا۔
اگرچہ گلگت بلتستان نے ابتدا ہی سے پاکستان کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کیا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام نے یہ احساس کیا کہ انہیں آئینی اور سیاسی سطح پر مکمل شمولیت نہیں ملی۔ نہ تو اسے آئینی طور پر مکمل صوبے کا درجہ دیا گیا، اور نہ ہی قومی اسمبلی و سینیٹ میں مکمل نمائندگی حاصل ہوئی۔ اس صورتحال نے بعض حلقوں میں حقوق کے حوالے سے سوالات کو جنم دیا۔
پاکستان نے مختلف ادوار میں گلگت بلتستان کو اختیارات دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں، جن میں گلگت بلتستان آرڈر 2018 نمایاں ہے، جس کے تحت علاقے کو مالی اور انتظامی خودمختاری فراہم کی گئی۔ یہ پیش رفت اس سمت ایک قدم ہے کہ گلگت بلتستان کو دیگر صوبوں کے مساوی حیثیت دی جا سکے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت پاکستان سے محبت رکھتی ہے اور ملک کا آئینی حصہ بننے کی خواہاں ہے۔ کچھ محدود آراء مختلف نوعیت کی بھی موجود ہو سکتی ہیں، جو جمہوری معاشروں کا حصہ ہوتی ہیں، لیکن قومی یکجہتی، آئینی شمولیت اور برابری کے اصول ہی وہ راستے ہیں جن سے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
گلگت بلتستان کی تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ جب قومیں شعور، اتحاد اور مثبت طرزِ فکر کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں تو وہ اپنی تقدیر سنوار سکتی ہیں۔ آج کے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ تعلیم، تحقیق اور تعمیرِ وطن کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے خطے اور ملک کے روشن مستقبل میں فعال کردار ادا کریں
column-in-urdu-gilgit-baltistan
