column in urdu, Flower trade 0

پھولوں کی تجارت ، آمینہ یونس ،سکردو بلتستان
کچھ لوگ اپنی انفرادیت کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں اور رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں دھڑکتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی قسمت کو اپنے ہاتھوں سے سنوارتے ہیں اور انھیں ادراک بھی نہیں ہوتا کہ ان کے یہ اعمال انھیں دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو کر رہے ہیں۔ وہ تو بس اپنی سادہ لوحی میں اور اپنے دل و روح کی تسکین کے لیے یہ عمل کرتے ہیں۔ نہ انھیں لوگوں کی واہ واہ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کی حاجت۔ یہ وہ عمل ہوتے ہیں جو انسان سے اس طرح سرزد ہوتے ہیں کہ نہ غرور کا شائبہ ہوتا ہے نہ خود کو کوئی بڑا سمجھنے کا گمان۔
بلند و بالا پہاڑوں سے ڈھکے، ہر دم محنت کی چکی میں پستے ان علاقوں میں ایسے گوہر نایاب بستے ہیں۔ اتنی محنت کے باوجود بھی یہ لوگ پھولوں کی تجارت کرتے ہیں، مطلب ان کے دل زندہ ہوتے ہیں اور وہ اپنی زندگی کو بھرپور جینے کی کوشش کرتے ہیں، اپنی روایات، ثقافت اور اصولوں کی پوری پاسداری کے ساتھ۔
انھی میں سے ایک خالہ سکینہ بھی تھیں۔ خالہ سکینہ وہ خاتون تھیں جو دودھیال کو بھی پورے حقوق دیتی تھیں اور ننھیال کو بھی۔ ان کے نزدیک رشتے نبھانا اور روایات کو زندہ رکھنا موت و زندگی جیسا تھا۔ وہ بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کے حقوق بھی ادا کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ خالہ سکینہ کو محبت بانٹنے کا ہنر آتا تھا، وہ غیروں کو بھی اپنانا جانتی تھیں اور غریبوں کا خیال رکھنا ان کی فطرت میں شامل تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے کھیتوں کا ایک ٹکڑا صرف پھولوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا، جہاں وہ خوبصورت پھولوں کی تجارت کرتی تھیں۔ گاؤں کی ہر عورت پھولوں کے بیج کے لیے ان کے پاس آیا کرتی تھی تاکہ اپنے گھروں کو بھی پھولوں سے سجا سکے۔ خالہ کے پاس کوئی ایسا بیج نہ ہوتا جو ان کے پاس دستیاب نہ ہو، پھولوں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی سبزیوں کے بیج بھی وہیں سے ملتے تھے۔
جب بہار اپنے جوبن پر آتی اور پھول کھلتے تو آتے جاتے لوگوں کی نگاہیں خالہ سکینہ کے کھیتوں کی طرف بے اختیار اٹھ جاتیں کیونکہ ان کے کھیت گاؤں میں داخل ہونے والی شاہراہ پر واقع تھے۔ سب ان کھیتوں کو تحسین بھری نظروں سے دیکھتے اور دل کو تسکین پہنچتی۔
گاؤں میں یہ رواج عام تھا کہ عورتیں اپنی مخصوص ٹوپیوں پر پھولوں کے چھوٹے گلدستے بنا کر پہنتی تھیں، اور خالہ سکینہ ایک بڑا ٹوکرا لے کر اسے پھولوں سے بھر کر شاہراہ پر بیٹھ جاتیں۔ وہ عورتوں کے لیے گلدستے بناتیں اور مردوں کو ایک ایک ڈنڈی دیتیں، جسے وہ کان کے پیچھے اڑا لیتے۔ عورتیں اپنے گلدستے ٹوپیوں پر سجاتیں اور شام کو ان پھولوں کو کسی گلاس یا برتن میں پانی میں رکھ دیتیں تاکہ صبح پھر تروتازہ ہوں۔ یوں خالہ سکینہ کے پھول پورے گاؤں میں مشہور تھے اور چھوٹے بڑے مرد و زن ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہر کوئی انھیں دور سے آتا دیکھ کر سلام کرتا۔
پھولوں میں رہنے والی، پھولوں کی تجارت کرنے والی، اپنی معصومیت میں خود کو ہمیشہ کے لیے امر کر گئی۔ ایک روز منوں مٹی تلے جا سوئی۔ خالہ سکینہ صرف زندوں کا ہی نہیں، مرنے والوں کا بھی خیال رکھتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں: ’’میرے مرنے پر قبر پر باقی چیزوں کے ساتھ بادام بھی تقسیم کرنا، میرے بیٹوں، ذرا زیادہ ڈالنا، کیونکہ دنیا میں ہی نہیں، آخرت میں بھی رشتے دار ہیں، ان کو بھی تحفے لے جانا ہے۔‘‘
یوں وہ اپنی بے پناہ خوبصورت شخصیت کے ساتھ آخرت کے سفر پر روانہ ہوئیں۔ وہ صرف ایک فرد نہیں، ایک مکمل شخصیت تھیں۔ ان کے بعد وہ پھول بھی نہ رہے جو ان کی زندگی کا خاصہ تھے۔
column in urdu, Flower trade

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
50% LikesVS
50% Dislikes

پھولوں کی تجارت ، آمینہ یونس ،سکردو بلتستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں