انصاف پر مبنی مائننگ، ترقی اور خوشحالی کی ضمانت، اشرف حسین شگری (جیولوجسٹ)
گلگت بلتستان میں حال ہی میں مائننگ لیز کے اجراء کا سلسلہ شروع ہوا ہے جو ایک مثبت اور مضبوط قدم ہے۔ اس سے نہ صرف روزگار میں اضافہ ہوگا بلکہ علاقے میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور بھی شروع ہوگا۔ لیکن یہ سب اسی وقت دیرپا اور کامیاب ثابت ہوگا جب انصاف اور حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے۔
مائننگ ایک حساس شعبہ ہے جو براہ راست عوام اور علاقے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس میں چند بنیادی پہلو ایسے ہیں جن پر عمل کے بغیر کوئی بھی کمپنی یا پراجیکٹ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
پہلا پہلو مقامی کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ ہے۔ حکومت نے اپنے قواعد و ضوابط میں یہ واضح کیا ہے کہ مائننگ سے حاصل ہونے والی رائلٹی اور فوائد میں مقامی کمیونٹی کا حق ہے۔ یہ حق براہ راست اور شفاف طریقے سے کمیونٹی کو دیا جانا چاہئے، بینک کے ذریعے، تاکہ بداعتمادی ختم ہو اور عوام کو یہ محسوس ہو کہ ان کے وسائل سے ہونے والا فائدہ واقعی انہی تک پہنچ رہا ہے۔
دوسرا پہلو جیولوجسٹ کے حقوق سے جڑا ہوا ہے۔ کسی بھی مائننگ پراجیکٹ کی بنیاد سائنسی انداز میں تبھی رکھی جا سکتی ہے جب پیشہ ور جیولوجسٹ اس میں شامل ہوں۔ اس لئے یہ لازمی ہونا چاہئے کہ جب مائننگ کمپنی کسی لیز کے لئے درخواست دے تو اس کے ساتھ جیولوجسٹ کا سی وی بھی شامل ہو اور محکمہ معدنیات اس کی جانچ اور تصدیق کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری بنایا جائے کہ کمپنی صرف سی وی لگا کر جان نہ چھڑائے بلکہ متعلقہ جیولوجسٹ کو باقاعدہ طور پر ہائر کرے اور اسے پراجیکٹ پر متعین بھی کرے۔ مزید یہ کہ محکمہ وقتاً فوقتاً فیلڈ وزٹ کر کے اس بات کی تصدیق کرے کہ جو جیولوجسٹ سی وی میں درج ہے وہ واقعی کمپنی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
تیسرا اہم پہلو ماحولیات کا ہے۔ مائننگ بلاشبہ ترقی لاتی ہے لیکن اگر ماحولیات کو نظر انداز کیا جائے تو اس کے منفی اثرات نسلوں تک رہیں گے۔ جنگلات، پانی کے ذخائر اور پہاڑ اس علاقے کا سرمایہ ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ مائننگ کے دوران ماحولیات کے تحفظ کے لئے سخت اقدامات کئے جائیں تاکہ قدرتی حسن اور عوامی زندگی متاثر نہ ہو۔
چوتھا پہلو مقامی مزدوروں کا روزگار ہے۔ یہ لازم ہونا چاہئے کہ مائننگ کمپنی جس علاقے میں کام کرے، وہاں کے مقامی skilled اور unskilled labor کو ترجیحی بنیادوں پر روزگار دیا جائے۔ اگر کسی خاص مہارت کی ضرورت ہو جو مقامی طور پر دستیاب نہ ہو تو پھر باہر سے لوگ لائے جائیں۔ اس طرح مقامی کمیونٹی براہِ راست فائدہ اٹھا سکے گی اور عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا۔
ان نکات کے ساتھ ساتھ ایک اور پہلو جو خاص طور پر گلگت بلتستان جیسے پہاڑی اور دشوار گزار علاقے میں انتہائی اہم ہے، وہ ہے ہیلتھ سیفٹی انوائرمنٹ (HSE)۔ یہاں کے پہاڑ، دریا اور تنگ راستے ایسے ہیں جہاں بغیر جدید سیفٹی کے کسی بھی وقت بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ مقامی طریقوں سے کی جانے والی مائننگ میں حفاظتی اصولوں کو اپنانا تقریباً ناممکن ہے۔ لہٰذا کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ HSE کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کام کریں تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو کمپنیاں بڑے پیمانے پر مائننگ کرتی ہیں وہ صرف اپنے کاروبار تک محدود نہ رہیں بلکہ جس علاقے سے وہ وسائل حاصل کر رہی ہیں وہاں کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ مقامی سطح پر صحت، تعلیم، سڑکوں اور کمیونیکیشن کے نظام کو بہتر بنانا ان کی سماجی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ جب کمپنی یہ سب کرے گی تو عوام نہ صرف ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے بلکہ ان کو اپنی ترقی کا حصہ دار بھی سمجھیں گے۔
آخر میں میری طرف سے حکومتِ گلگت بلتستان، محکمہ معدنیات اور تمام مائننگ کمپنیوں کو پرزور ریکویسٹ ہے کہ وہ ان نکات پر عمل درآمد کریں۔ جب عوام اور کمپنیاں ایک ساتھ چلیں گی تو علاقے میں ترقی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ خوشحالی آئے گی، بے روزگاری ختم ہوگی اور اعتماد کی فضا قائم ہوگی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے اور ہمارے خوبصورت گلگت بلتستان اور پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کرے۔ آمین۔
اشرف حسین شگری (جیولوجسٹ)
column in urdu, Fair mining, a guarantee of development and prosperity
