گلگت بلتستان، صحت کی محرومی اور میڈیکل کالج کا وعدہ، ڈاکٹر ژےرینگ شگری
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گلگت بلتستان کی آبادی تقریباً چودہ لاکھ ہے، جبکہ پانچ سے آٹھ لاکھ کے قریب لوگ پاکستان کے دیگر شہروں اور بیرون ملک مقیم ہیں۔یہ خطہ جغرافیائی طور پر وسیع، دشوار گزار اور قدرتی حسن سے مالا مال ضرور ہے، مگر افسوس کہ صحت کے شعبے میں یہ خطہ بدترین محرومیوں کا شکار ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ہر ہزار کی آبادی کے لیے کم از کم چار سے پانچ صحت عامہ کے کارکن (ڈاکٹرز، نرسز اور ٹیکنیشن) ضروری ہیں۔اسی طرح ایک جنوبی ایشیائی ملک کی گائیڈ لائن کے مطابق ہر دس لاکھ آبادی پر ایک میڈیکل کالج (100 نشستوں والا) ہونا چاہیے۔
اگر ہم ان معیارات کو گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھیں تو تصویر مایوس کن ہے۔ بیس لاکھ سے زائد مجموعی آبادی کے لیے یہاں سرکاری سطح پر ہزار سے کم ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ٹرشری کیئر کے ادارے اور میڈیکل کالج جیسی بنیادی ضرورتیں ابھی خواب کی صورت میں ہیں۔ نتیجتاً، گلگت بلتستان کے طالبعلموں کو ڈاکٹر بننے کے لیے دیگر صوبوں سے بھیک میں ملنے والی چند نشستوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
یہ نشستیں نہ صرف آٹے میں نمک کے برابر ہیں بلکہ اکثر اوقات طعنوں، احساسِ محرومی اور علاقائی امتیاز کے بوجھ کے ساتھ حاصل کی جاتی ہیں۔
2009 میں حکومتِ وقت نے گلگت بلتستان میں میڈیکل کالج کے قیام کا اعلان تو کیا تھا،مگر “ہنوز دلی دور است” — پندرہ برس گزرنے کے باوجود صرف بیانات بدلے، حالات نہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں نے سکردو میڈیکل کالج کے نام پر کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی،مگر یہ دراصل ایک نجی گروپ کی جانب سے آر ایچ کیو ہسپتال سکردو کو ہتھیانے اور مہنگے داموں پرائیویٹ میڈیکل کالج بنانے کی ناکام کوشش تھی۔بعد ازاں “پانچ میڈیکل کالج” بنانے کا نعرہ بھی ایک سیاسی شوشے سے زیادہ ثابت نہ ہوا۔
اب ایک بار پھر انتخابی موسم ہے — اور اس موضوع پر سیاست زوروں پر ہے۔ہر جماعت عوامی جذبات سے کھیلنے کے لیے میڈیکل کالج کے وعدے کرے گی۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس بار بھی انہی وعدوں کے فریب میں آئیں گے؟
اسلام آباد میں برسرِ اقتدار جماعت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو یہ بہترین موقع ہے کہ انتخابات سے پہلے گلگت بلتستان میں میڈیکل کالج کے قیام کے عملی اقدامات شروع کرے۔ کلاسز کا آغاز کر کے وہ نہ صرف عوامی اعتماد جیت سکتی ہے بلکہ ایک تاریخی خلا بھی پُر کر سکتی ہے۔
بطور ایک ڈاکٹر، میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ الیکشن کے بعد کے وعدوں پر تسلی کرنے کے بجائے،
الیکشن سے پہلے عملی اقدام کا مطالبہ کریں۔
میڈیکل کالج کا قیام صرف ایک ادارہ نہیں ہوگا —یہ ایک خطے کی صحت، تعلیم، روزگار اور خود اعتمادی کا نیا آغاز ہوگا۔ اگر آج یہ قدم نہ اٹھایا گیا تو آنے والے پانچ سال بھی صرف وعدوں، اعلانات اور مایوسی کی نذر ہو جائیں گے۔
آپ نے فزکس کیوں انتخاب کیا؟ ، فیاضی
علیمہ خان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک، بینک اکاؤنٹس منجمد، گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
کراچی، 3 دن کے دوران ساڑھے 6 کروڑ سے زائد کے 13 ہزار ای چالان جاری
column in urdu, Deprivation of Healthcare
 
         
        




 
                             
                             
                             
                             
			 
							 
							 
							 
							 
							