بلتی زبان کے الفاظ کا زوال، شناخت کا بحران, وسیم حسین
طالب علم، شعبہ زبان و ثقافتی مطالعات
یونیورسٹی آف بلتستان، سکردو (سمسٹر چہارم)
بلتستان کی پہچان اس کے برف پوش پہاڑ، شفاف جھیلیں، اور مہمان نواز لوگ ہیں،
لیکن ان تمام مظاہر سے بڑھ کر اس خطے کی اصل روح اس کی زبان — بلتی ہے۔
یہ زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں، بلکہ ہزاروں سال پرانی تہذیب، ثقافت، اور تاریخ کا خزانہ ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج یہ زبان تیزی سے زوال کی طرف جا رہی ہے۔
زبان اور شناخت — ایک گہرا رشتہ
زبان کسی بھی قوم کی شناخت، شعور اور فکری وجود کی بنیاد ہوتی ہے۔
جب زبان کمزور ہوتی ہے تو قوم کی ثقافت، رہن سہن اور سوچ بھی متاثر ہوتی ہے۔
آج بلتی زبان کے کئی ایسے الفاظ جو کبھی روزمرہ کا حصہ تھے،
اب نوجوان نسل کے لیے اجنبی ہو چکے ہیں۔
مثلاً “چھوگون” (بچہ)، “سُکی” (محبت)، “بامبو” (پہاڑ کی چوٹی) جیسے الفاظ
اب شہری زندگی میں بہت کم سنائی دیتے ہیں۔
وجوہات — زوال کہاں سے شروع ہوا؟
1. اردو اور انگریزی کا بڑھتا رجحان:
تعلیم اور میڈیا میں اردو و انگریزی کے استعمال نے بلتی کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔
2. سماجی تصور:
بلتی بولنے کو بعض نوجوان “قدامت پسندی” سمجھتے ہیں،
جبکہ اردو بولنے کو “جدید اور معیاری” تصور کیا جاتا ہے۔
3. گھریلو سطح پر تبدیلی:
والدین خود اپنے بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں تاکہ “تعلیمی ماحول” بنے،
لیکن اسی عمل سے مادری زبان کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔
4. ڈیجیٹل مواد کی کمی:
انٹرنیٹ، یوٹیوب یا سوشل میڈیا پر بلتی زبان میں معیاری تعلیمی یا تفریحی مواد نہ ہونے کے برابر ہے۔
لسانی و ثقافتی اثرات
بلتی زبان کے زوال کے ساتھ ساتھ لوک گیت، کہاوتیں، ضرب الامثال، اور دیہی داستانیں بھی ختم ہو رہی ہیں۔
یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک پوری تہذیبی یادداشت ہے جو مٹتی جا رہی ہے۔
بلتی زبان کے ماہر ڈاکٹر غلام نبی لونگ سکاردو کے مطابق:
> “اگر موجودہ نسل نے اپنی مادری زبان کو سنبھالا نہیں،
تو آئندہ 30 سالوں میں یہ زبان صرف کتابوں میں رہ جائے گی، گھروں میں نہیں۔”
احیائے زبان کے ممکنہ اقدامات
بلتی زبان کے تحفظ کے لیے ہمیں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
1. تعلیم میں شمولیت:
ابتدائی جماعتوں میں بلتی زبان کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
2. ڈیجیٹل مواد کی تخلیق:
بلتی زبان میں یوٹیوب، پوڈکاسٹ، اور ایپلیکیشنز بنائی جائیں۔
3. ثقافتی تقریبات:
اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بلتی زبان کے مشاعرے، مباحثے اور کہانی سنانے کے مقابلے کرائے جائیں۔
4. والدین کا کردار:
بچوں سے مادری زبان میں بات کی جائے تاکہ یہ فطری طور پر نسل در نسل منتقل ہو۔
نتیجہ
زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ روح اور شناخت کا استعارہ ہے۔
اگر ہم نے اپنی زبان کھو دی تو دراصل ہم نے اپنی پہچان کھو دی۔
بلتی زبان کا احیا صرف ایک لسانی ضرورت نہیں،
بلکہ ثقافتی بقا کی جنگ ہے۔
یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی مادری زبان کو محبت، فخر اور عملی عمل سے زندہ رکھیں۔
حوالہ جات:
“بلتی زبان اور ثقافت پر تحقیقی جائزہ” — بلتستان اکیڈمی رپورٹ (2024)
ڈاکٹر غلام نبی لونگ، “بلتی زبان کی تاریخ و ارتقا” (شائع شدہ: سکردو، 2023)
یونیورسٹی آف بلتستان — شعبہ زبان و ثقافتی مطالعات، سروے رپورٹ (2024)