گلگت بلتستان میں جرائم اور چیلنجز ، سماجی کارکن عرفان حیدر
گلگت ایک ایسا شہر ہے کہ جہاں پر زیادہ تر لوگ مقامی اور مہمان نواز سادہ اور غریب پرور ہیں یہاں کے لوگ سادگی اور ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ رویہ کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن کچھ عرصے سے یہاں پر جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ہر کوئی یہ بحث کر رہا ہے کہ ان جرائم کا ذمہ دار کون ہے مقامی لوگوں کے مطابق 90 پرسنٹ جرائم میں ایسے لوگ ہیں جو باہر سے ا کر یہاں اباد ہیں جو بالکل سچ ہے پولیس ریکارڈ کے مطابق جرائم میں جتنے لوگ گرفتار ہیں وہ غیر مقامی ہیں یہاں پر میں اپنے غیر مقامی بھائیوں کے دل ازاری کرنا نہیں چاہتا البتہ سچ یہی ہے گلگت کے مقامی لوگوں نے ہر وقت کھلے دل سے اپنے غیر مقامی بھائیوں کے لیے اپنے دل کے دروازے کھولے ہوئے ہیں لیکن افسوس کہ یہاں پر کوئی بھی واقعہ رونما ہوتا ہے مقامی لوگوں کے اوپر الزام تراشی عام ہو جاتی ہے یہ مناسب نہیں حال ہی میں گلگت میں پیش انے والا واقعہ دل دہلا رہا ہے کہ جس میں دوستوں نے ہی اپنے دوست کے ساتھ زیادتی کر کے دریا برد کر دیا یہ واقعہ انسانیت اور دوستی کے رشتے پر بد نما داغ ہے یہ واقعہ ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے ہمیں شرم نہیں اتی کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں ہم نے اللہ اور اس کے رسول کا راستہ چھوڑ دیا ہے ہم کفار سے بھی بدتر ہو چکے ہیں ہم سے تو غیر مسلم لاکھ درجہ بہتر ہے کیا ہم نے کبھی سنا ہے کہ کسی چرچ گرجا گھر کے اندر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے کسی بھی مہذب اقوام میں یہ نہیں ہوتا کہ دوستو نہیں دوست کو زیادتی کا نشانہ بنا کے دریا برد کیا ہو یقینا نہیں یہ تلخ حقائق ہمیں دعوت فکر دیتے ہیں کہ ہم اپنے رویوں کا دوبارہ جائزہ لیں اور اس تاریک حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جو انسانیت کے نام پر دبہ ہیں
جب تک ہم اپنی اجتماعی ذمہ داری کا احساس نہیں کریں گے تب تک یہ ظلم ہوتا رہے گا اور کئی کاشان ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے
column in urdu, Crime and challenges in Gilgit-Baltistan
