ضمنی الیکشن! پروفیسر قیصر عباس
ضمنی الیکشن! پروفیسر قیصر عباس
آخر کار ان حلقوں میں ضمنی انتخاب بھی ہوچکا جن حلقوں سے کوئی امیدوار ایک سے زائد نشستوں پر جیتا تھا۔جن نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوا وہ مجموعی طور پرصوبائی اسمبلی کی سولہ جب کہ قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں تھی۔ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون نے میدان مار لیا ہے ۔ اس ضمنی الیکشن میں کچھ ہیوی ویٹ بھی الیکشن لڑ رہے تھے جن میں کچھ کو شکست اور کچھ جیت گئے۔سب سے دلچسپ صورتحال ضلع گجرات کی تھی جہاں صوبائی حلقہ پی پی 32سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی انتخاب لڑ رہے تھے اور ان کے مدمقابل ان بھتیجے موسیٰ الہی تھے جو کہ چوہدری وجاہت حسین کے صاحب زادے ہیں یاد رہے عام انتخابات 2024ء میں یہاں سے چوہدری شجاعت کے چھوٹے بیٹے چوہدری سالک حسین منتخب ہوئے تھے چونکہ چوہدری سالک حسین قومی اسمبلی کے حلقے سے بھی ایم این اے بنے اور پاکستانی آئین کے مطابق اگر کوئی شخص ایک سے زائد نشستوں پر منتخب ہوتا ہے تو اسے ایک نشست چھوڑنا پڑتی ہے اس لئے چوہدری سالک حسین نے صوبائی نشست چھوڑ دی جس پر 21اپریل کو ضمنی الیکشن ہوا اور یوں موسیٰ الہی پنجاب اسمبلی کے رکن بن گئے۔دوسری طرف لاہور کے ایک صوبائی حلقے سے مونس الٰہی الیکشن لڑ رہے تھے وہ بھی الیکشن ہار گئے ہیں۔پی پی 54 ظفروال سے احسن اقبال کے بیٹے احمد اقبال ایم ۔پی۔ اے منتخب ہوئے ہیں۔ یہ نشست بھی احسن اقبال نے دو نشستوں پر منتخب ہو کر ایک نشست خالی چھوڑی تھی۔ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی “سنی اتحاد کونسل”کے چوہدری اویس قاسم خان تھے جن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ایک بڑا معرکہ ڈی ۔آئی۔ خان میں بھی دیکھنے کو ملا جہاں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل آمین گنڈا پور ایم این اے منتخب ہوئے ہیں یاد رہے فروری 2024 کے انتخابات میں اسی حلقے سے علی آمین اور جے ۔یو۔ آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان آمنے سامنے تھے مگر مولانا کو شکست کا سامنا کر نا پڑا ۔علی آمین نے صوبائی اور قومی حلقوں سے الیکشن لڑا اور دونوں حلقوں سے جیت حاصل کی لیکن جب علی امین گنڈاپور کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو علی آمین نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی۔شیخوپورہ سے رانا تنویر حسین کے بھائی رانا افضال حسین ایم ۔پی ۔اے منتخب ہوئے ہیں۔این اے 132 قصور سے ملک رشید خان جو کہ سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب ملک احمد خان کے والد ہیں٫ منتخب ہوئے ہیں اس حلقہ سے شہباز شریف نے فروری 2024 میں الیکشن لڑا تھا چونکہ میاں صاحب لاہور سے بھی منتخب ہوئے تھے اس لئے انہوں نے قصور والی نشست خالی کر دی تھی ۔پی پی 36 وزیر آباد سے مسلم لیگ نون کے امیدوار عدنان افضل چھٹہ نے میدان مارا جب کہ حامد ناصر چٹھہ کے بڑے بیٹے فیاض احمد چھٹہ کو شکست ہوئی ہے یاد رہے کہ بزرگ سیاستدان اور سابق سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کے چھوٹے بیٹے محمد احمد چھٹہ نے 2024 ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی محمد احمد نے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی تھی جس پر ضمنی الیکشن ہوا اور ان کے بڑے بھائی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔پی پی 93 بھکر سے سعید اکبر خان نوانی ایم پی منتخب ہوئے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلا کو شکست ہوئی ہے ۔یاد رہے یہ وہی ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلا ہیں جہنوں نے اپریل 2022 ء میں پی ٹی آئی کے “فارورڈ بلاک” میں شمولیت اخیتار کی تھی۔ جس کی وجہ سے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور عمران خان کو ایوان وزیراعظم چھوڑنا پڑا ۔اگرچہ ضمنی الیکشن میں افضل خان ڈھانڈلا کو پی ٹی آئی “سنی اتحاد کونسل”کی طرف سے ایم پی اے کا ٹکٹ دیا گیا تھا مگر پی ٹی آئی کے کارکنان کے احتجاج کی وجہ سے یہ ٹکٹ واپس لے لیا گیا تھا اس کے بعد ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلا نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا مگر شکست سے دو چار ہوئے ۔باجوڑ سے مبارک ذیب نے الیکشن جیتا ہے یہ وہی مبارک ذیب ہیں جن کے بھائی ریحان زیب جو کہ قومی اسمبلی کے امیدوار تھے ٫کو قتل کر دیا تھا۔اس الیکشن کے حوالے سے حکومت اور حزب اختلاف کا کا موقف بالکل مختلف ہے حکومت الیکشن میں جیت کا کریڈٹ خود کو دے رہی ہے ہے جب کہ اپوزیشن الیکشن کمیشن اور سرکاری مشینری کو موردالزام ٹھہرا رہی ہے۔اپوزیشن کے نزدیک ضمنی الیکشن میں بدترین دھاندلی کی گئی ہے اور ان کے جیتے ہوئے امیدواروں کو ہرایا گیا ہے ۔لیکن حکومت کو بنے ابھی چند ماہ ہی ہوئے حکومت یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ چند ماہ کی کارکردگی کی وجہ سے عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے جب کہ اپوزیشن کے پاس دھاندلی کا “چورن “موجود ہے جسے وہ بیچ رہی ہے اور یہ “چورن” بک بھی رہا ہے.ویسے بھی پاکستان میں یہ روایت چلتی آرہی ہے کہ موجودہ حکومت ہی ضمنی الیکشن جیتتی ہے کیونکہ سرکاری وسائل اور مشینری پر حکومت کی گرفت مضبوط ہوتی ہے” پری پول رگنگ ” کی روایت بھی بہت پرانی چلتی آ رہی ہے جس کی وجہ ہمارے ہاں جمہوریت اس انداز میں پروان نہیں چڑھ پائی ۔دراصل جمہوریت تب ہی مضبوط ہو سکتی ہے جب ہمارے رویوں میں جمہوریت آئے گی وگرنہ جس جمہوریت پر ہم فخر کر رہے ہیں یہ آمریت سے بھی گئی گزری ہے۔
پروفیسر قیصر عباس!
گلگت بلتستان بیوروکریسی میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر تبادلے کردئیے گئے، نوٹفیکیشن جاری
column in urdu , by election in Pakistan