قرارداد کی منظور ی! پروفیسر قیصر عباس!
قرارداد کی منظور ی! پروفیسر قیصر عباس!
دوسری جنگ عظیم کے بعد جنگوں کی ہولناکیوں کو روکنے کے لئے عالمی برادری نے یہ فیصلہ کیا کہ مجلس اقوام کی طرح کوئی بین الاقوامی تنظیم ہونی چاہئے جو کہ جنگوں کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرے۔ چونکہ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی حثیت سپر پاور کی سی تھی جب کہ باقی ممالک کو وہ حثیت حاصل نہیں تھی مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کا اپنے مقبوضہ علاقوں پر کنٹرول کم ہونا شروع ہوگیا اور آخر کاردنیا” ملٹی پالر سسٹم” میں تبدیل ہوگئی۔لیکن دوسری جنگ عظیم نے برطانیہ کا باقی بھرم بھی ختم کردیا اور دنیا “بائی پالر سسٹم” میں تبدیل ہوگئی اب دنیا کی قیادت دو مختلف نظریات رکھنے والے ممالک کر رہے تھے سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والے ممالک کی قیادت امریکہ کے پاس تھی جب کہ اشتراکی نظریات کے حامل ممالک کی قیادت روس کر رہا تھا۔اکتوبر 1945ءمیں جنگوں کو روکنے کے لئے جس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اس کا نام اقوام متحدہ “United Nations” رکھا گیا۔اس کی تنظیم سازی اس طرح کی گئی ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو اس کا حصہ ہیں وہ سارے ممالک جنرل اسمبلی کے ارکان ہیں جب کہ سلامتی کونسل کے ارکان کی تعداد 15 ہے ۔مزید ان 15 ارکان میں دس غیر مستقل ممبران ہیں جن کی تقرری دو سال کے لئے ہوتی ہے جب کہ باقی 5 ارکان مستقل ہیں۔ ان مستقل ارکان ممالک میں امریکہ ٫برطانیہ ٫روس ٫فرانس اور چین شامل ہیں۔اقوام متحدہ میں فیصلہ سازی کا اختیار سلامتی کونسل کے پاس ہے اور سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں بھی پانچ ممالک سب سے زیادہ با اختیار ہیں کیونکہ ان پانچ ممالک کے پاس ہی “ویٹو پاور “ہے اور اس اختیار کی وجہ سے یہ ممالک کسی بھی بین الاقوامی ایشو کو اقوام متحدہ میں زیر بحث لانے سے روک سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جنگوں اور امن کا فیصلہ انہیں پانچ ممالک نے اپنے مفاد میں کیا ہےاور یہی فیصلے دنیا میں نا انصافی اور ظلم کی بنیاد بن رہے ہیں۔ان پانچ ممالک کی چوہدرہٹ کی وجہ سے ہی دنیا بدامنی کا شکار ہے کیونکہ یہ ممالک ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنے کےلئے چھوٹے ممالک کی سرزمین کو جنگ کے لئے چنتے ہیں اس کی واضح مثال ویت نام ٫افغان اور عراق وشام جنگیں ہیں۔ ان بڑے ممالک نے کبھی بھی براہ راست ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہیں کی بلکہ “پراکسی وارز” کا سہارا لیا ہے۔اب تازہ ترین صورتحال دیکھ لیں اکتوبر 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے”طوفان الاقصی “کے بعد سے اسرائیل کی فلسطین کے حوالے سے مسلسل بربریت جاری ہے ۔غزہ اور فلسطین کی ہر طرف سے ناکہ بندی کی گئی ہے نا تو اس خطے میں ادویات پہنچانے کی اجازت مل رہی ہے اور نہ ہی اشیاء خورونوش ۔اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ لاشوں کے لئے سرد خانے اور کفن تک ناپید ہوچکے ہیں۔فلسطینی والدین اپنے پھول نما بچوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر رہے ہیں۔مگر اس کے باوجود عالم اسلام کے ساتھ ساتھ عالمی برادری بھی چپ رہ کر تماشا دیکھ رہی ہے ۔پانچ ماہ کی ننگی اسرائیلی بربریت کے بعد گزشتہ روز سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کی ہے یہ قراردادد اکثریت سے منظور کی گئی ہے کیونکہ سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ ارکان نے جنگ بندی کی اس قرارداد کے حق میں ووٹ کیا جب کہ باظاہر دنیا میں امن کاڈھونڈورا پیٹنے والا ملک امریکہ جس نے اپنی منافقت کا اظہار کرتے ہوئے اس ووٹنگ کے عمل سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔اگرچہ امریکہ کی غیر حاضری سے اس قرار داد کی صحت پر کوئی اثر تو نہیں پڑا مگر امریکہ کی منافقت ضرور آشکار ہوگئی ہے ۔دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکہ کو دھمکی آمیز لہجے میں یہ باور کروایا ہے کہ “امریکہ اپنے موقف سے ہٹ گیا ہے۔”نیتن یاہو کے دفتر نے کہا “یہ امریکہ کی مستقل پوزیشن سے واضح پسپائی تھی٫اقوام متحدہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے پر امریکہ نے ساتھ نہیں دیا۔”جب کہ اسرائیلی وزیر دفاع نے واشنگٹن میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے ساتھ ملاقات سے قبل کہا”اسرائیل حماس کے خلاف اپنی جنگ اس وقت تک ختم نہیں کرے گا جب تک یرغمالیوں کو آزاد نہیں کروا لیا جاتا۔”دوسری طرف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا “اسرائیل غزہ میں جنگ کی وجہ سے عالمی حمایت کھو رہا ہے ٫آپ کو جنگ ختم کرنا ہوگی۔”اگرچہ امریکہ میں سول سوسائٹی سمیت تمام مہذب اقوام اور ممالک اسرائیلی بربریت کی مذمت کر رہے ہیں مگر اسرائیل کے سر سے جنگی جنون اترنے کا نام نہیں لے رہا اورلگ ایسا رہا ہے سلامتی کونسل کی قرارداد بھی اتنی کارگر ثابت نہیں ہوگی ۔
نوکری 2024، آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج ایپی اینڈ سی فیسکو راول میںنوکری کا بہترین موقع
گلگت چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کا یو این وویمن پاکستان کے وفد نے ڈپٹی کنٹری نمائندو ں سے ملاقات
column in urdu ,Approval of the resolution