سچ لکھنا جرم ہے، سید مظاہر حسین کاظمی
آج کے دور میں قلم ایک طاقت ہے۔ قلم وہ ذریعہ ہے جو ظلم کو بے نقاب کرتا ہے، سچائی کو بیان کرتا ہے اور قوموں کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان جیسے حساس خطے میں، جہاں عوام دہائیوں سے اپنے بنیادی آئینی، سیاسی اور معاشی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، وہاں سچ لکھنا اور حق بات کہنا جرم سمجھا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان کے باسی برسوں سے اپنے بنیادی حقوق کے منتظر ہیں۔ آئینی حیثیت، وسائل پر اختیار، نمائندگی، اور روزگار جیسے مسائل آج بھی حل طلب ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی فرد یا لکھاری ان مسائل کو اجاگر کرتا ہے تو اسے “ملک دشمن”، “غدار” یا “فساد پھیلانے والا” کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آزادیِ اظہار ہر شہری کا بنیادی حق ہے، مگر گلگت بلتستان میں یہ حق مسلسل سلب کیا جا رہا ہے۔ صحافی، لکھاری اور سماجی کارکن اگر کسی سچائی کو قلم بند کریں تو انہیں نوٹسز، مقدمات، دھمکیاں اور حتیٰ کہ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سچ بولنا یا لکھنا سب سے بڑا جرم ہے۔
کیا مسائل کو چھپا دینے سے وہ ختم ہو جاتے ہیں؟
کیا عوام کی آواز دبانے سے خطہ ترقی کر سکتا ہے؟
کیا آئینی حقوق کا مطالبہ کرنا جرم ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جو قومیں اپنی آواز کھو دیتی ہیں وہ صدیوں غلامی میں رہتی ہیں۔ اور جو قلم ٹوٹ جاتے ہیں، وہاں اندھیرا پھیل جاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے نوجوان اور باشعور طبقہ آج بھی سچ لکھنے سے باز نہیں آ رہا۔ وہ جانتے ہیں کہ ظلم کے خلاف لکھنا مشکل ہے مگر یہی اصل جہاد ہے۔ قلم کی طاقت سے ہی آنے والی نسلیں بیدار ہوں گی اور اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں گی۔
اگر گلگت بلتستان میں واقعی امن، ترقی اور خوشحالی چاہیے تو سب سے پہلے سچ کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ لکھنے والوں کو جرم کے بجائے قوم کا اثاثہ سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ جو زبان اور قلم بند کر دیے جائیں، وہاں ناانصافی بڑھتی ہے، اور ناانصافی ہمیشہ بغاوت کو جنم دیتی ہے۔
column in urdu